میڈم بس لاشیں جلدی دے دیں ،جنازے کا وقت دیا ہوا ہے

ان حالات میں کوئی کیسے کام کر سکتا ہے؟؟۔آپ خود کو اس سارے عمل سے کتنا غیر جانبدار رکھ سکتے ہیں؟؟۔کون شقی القلب ہو گا جس کی ہچکی نہ بند ھ جاتی ہو؟۔کون اتنا سفاک ہوسکتا ہے جس کی آنکھوں میں ایک بارپانی نہ تیرجائے؟

Sabookh Syed سبوخ سید جمعہ 11 اپریل 2014

Sabzi Mandi Blast Story By Sabookh Syed
چھتیس ایام میں اسلام آباد کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے دو بڑے واقعات میں چھتیس سے زائد افراد کے قتل کے بعد اسلام آباد میں مایوسی کی فضا ہے۔اسلام آباد کی سبزی منڈی میں تیرہ برسوں کے اندر ہونے والے تیسرے خوفناک بم دھماکے کے بعد پوری سبزی منڈی خالی تھی۔امردوں کی جہاں بولی لگی ہوئی تھی وہاں چاروں طرف امرود بکھرے پڑے تھے لیکن ان کی خرید و فروخت کر نے والے زندگی سے روٹھ گئے تھے۔


پمز اسپتال کے مردہ خانے کے سامنے میں اپنے کیمرا مین کے ساتھ کھڑا زرا ”ہمت والے “ شخص کی تلاش میں تھا جو میری اسٹوری کے لیے ایک ”جاندار “سی بات کر سکے۔ مردہ خانے کے سامنے کالی قمیص اور سفید شلوار میں ملبوس تقریبا پندرہ برس کا ایک لڑکا ہاتھوں کے پیالے میں منہ رکھے ،سر جھکائے مسلسل آہیں اور سسکیاں لے رہا تھا ۔

(جاری ہے)

میں بڑی مشکل سے اس کے قریب گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس سے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا۔

شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا وارث علی سبزی منڈی اسلام آباد میں ریڑھی لگا کر اپنے پانچ بیٹوں کا پیٹ پالتا تھا لیکن بدھ کی صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ ہونے والے دھماکے میں وارث علی امرود کی پیٹیوں کے سودے میں اپنی جان کا سودا کر گیا۔پمز کے مردہ خانے کے سامنے گھاس پر بیٹھے وارث علی کے بیٹے شوکت کے چہرے پر اس سوال کا عکس محسوس کیا جا سکتا ہے جسے کھیلنے اور پڑھنے کی عمر میں نہ چاہتے ہوئے بھی اب اس دھماکے والی جگہ جانا ہے۔

اپنے باپ کی خریدی ہوئی امرودوں کی پیٹی اٹھانی ہے اور اپنے چار بہن بھائیوں اور ماں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے ناتواں کندھوں پر پورے خاندان کی پرورش کا بوجھ اٹھانا ہے ۔۔۔
ابھی تک لاشوں کی شناخت بھی نہیں ہوئی تھی۔دو پولیس اہلکار منہ پر ماسک چڑھائے مردہ خانے کے دروازے کو باہر سے کنڈی لگائے کھڑے تھے جبکہ تین پولیس اہلکار ایک درخت کے نیچے پڑی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھے اسی موضوع پر بات کر رہے تھے ۔

میں شوکت کے ساتھ زمین پر بیٹھااس کا غم کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک آواز آئی ”اپنے عزیزوں کی لاشیں شناخت کر لیں “۔شوکت دوڑتا ہوا مردہ خانے کے دروازے تک جا پہنچا لیکن پتا نہیں کیوں ،وہ دروازے سے اندر جانے کے بجائے لوٹ آیا۔اور پھر اس نے چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن شوکت کو سہارا دینے والا کوئی نہیں تھا ،اسے دلاسہ دینے والا کوئی نہیں تھا۔

کچھ لوگوں نے اسے پکڑ کر چپ کرانے کی کوشش کی لیکن اس کمزور سے لڑکے میں نجانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی تھی کہ وہ لوگوں کا گھیرا توڑ کر چیختا ہوا نکل گیا۔
ان حالات میں کوئی کیسے کام کر سکتا ہے؟؟۔آپ خود کو اس سارے عمل سے کتنا غیر جانبدار رکھ سکتے ہیں؟؟۔کون شقی القلب ہو گا جس کی ہچکی نہ بند ھ جاتی ہو؟۔کون اتنا سفاک ہو سکتا ہے جس کی آنکھوں میں ایک بار پانی نہ تیرجائے؟۔

لیکن پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا امتحان بحرانوں میں ہی ہوتا ہے ۔ڈاکٹرز ،پولیس ،رضا کار اور صحافی ،،،سب اپنا اپنا کام کر رہے تھے ۔جب آپ مائیک اٹھا کر کسی کے پاس جاتے ہیں تو اول کسی کو کچھ کہنے کے لیے آمادہ کرنا ہی بہت مشکل ہو تا ہے۔ ایسے موقعوں پر جو لوگ بولنے کے لیے تیار بھی ہوجائیں تو مجھے ان سے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے۔
میں بیٹھا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کہوٹہ کا خضر بھی میری قریب آکر بیٹھ گیا۔

اتنے میں ایک شخص لاش کی شناخت کر کے باہر نکلا تو خضر دوڑتا ہوا اس کے پاس جا پہنچا۔پتا چلا کہ خضر کا ماموں بم دھماکے میں لقمہ اجمل بن چکا تھا۔ خضر کا مامو ں اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کا پیٹ پالنے کے لیے کہوٹہ سے روزانہ رات 2 بجے نکلتا تھا اور فجر کی نماز سبزی منڈی میں پڑھتا۔دن گیارہ بجے تک فروٹ کی ریڑھی لگاتا اور چار ،پانچ سو روپیہ لیکر اپنے گھر واپس جاتا۔

اس کے مرنے کے بعد سوال تو یہ پیدا ہو تا ہے کہ مہنگائی اور غربت میں اب ان بچوں کا بوجھ کون اٹھائے گا ؟؟
دو لڑکے مردہ خانے سے لاشیں شناخت کر نے کے بعد روتے ہوئے باہر نکلے۔ایک کا بھائی اور ایک کا باپ انہیں دھوکا دے گیا تھا۔16 بیٹیوں اور 9 بیٹوں کو اپنے پیچھے روتا چھوڑ کر وہ دھماکے کا نشانہ بن گیا تھا۔تقریبا تیس سے زائد فوٹو گرافروں کے کیمروں کے شٹر دھڑا دھڑ کلک ہونا شروع ہو گئے کہ شاید اخبار کے صفحہ اول کے لیے تصویر نکل آئے۔

سامنے سے وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ ،تحریک انصاف کے اسلام آبا دسے رکن قومی اسمبلی اسد عمر آرہے تھے ۔ کیمروں کی دلچسپی اب روتے ہوئے لڑکوں میں ختم ہو گئی تھی ۔ میڈیا مکمل طور وزیر اور ایم این اے کے لیے گھوم گیا۔ مرنے والوں کے لواحقین بھی آگئے۔ میڈیا کے سامنے سرکار اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر مذمت کی ۔ جب یہ چہرے لواحقین کی طرف مڑے تو وہاں کوئی مطالبہ تھا اور نہ ہی کوئی سوال ۔ہاں ایک بوڑھا شخص آگے بڑھا ،،جسے اپنے جوان بیٹے کی میت اپنے کندھوں پر اٹھا کرخیبر پختون خواہ کے ضلع دیر جانا تھا ،لرزتے ہوئے بدن سے ایک آواز برآمد ہوئی۔میڈم اگر لاشیں جلدی مل جائیں تو مہربانی ہوگی کیونکہ ہم نے گاوٴں میں 5 بجے جنازے کا ٹائم دیا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sabzi Mandi Blast Story By Sabookh Syed is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 April 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.