ترقیاتی سکیموں کا سیاسی بجٹ

وفاقی بجٹ برائے مالیاتی سال 2016-17 اپنی پیش کردہ تجاویز کے اعتبار سے مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا اور حکومت کو سال بھر افراط زر، جی ڈی پی گروتھ ریٹ اور روزگار جیسے کئی مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔شعبہ زراعت کے حوالے سے بظاہر بڑی مراعات کا اعلان کر کے دادتحسین سمیٹی جا رہی ہے

جمعرات 9 جون 2016

Taraqiyati Schemoon ka Siasi Budget
احمد جمال نظامی:
وفاقی بجٹ برائے مالیاتی سال 2016-17 اپنی پیش کردہ تجاویز کے اعتبار سے مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا اور حکومت کو سال بھر افراط زر، جی ڈی پی گروتھ ریٹ اور روزگار جیسے کئی مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔شعبہ زراعت کے حوالے سے بظاہر بڑی مراعات کا اعلان کر کے دادتحسین سمیٹی جا رہی ہے مگر موثر انتظامی اقدامات اور درست سمت میں ہی اس کے ثمرات کا تعین ہو سکے گا۔

ورنہ زراعت کا شعبہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی بے ڈھنگے انداز میں چلتا رہے گا۔جس تنزلی کا تعلق صرف کپاس کی پیداوار میں کمی سے نہیں بلکہ جدید طریقہ زراعت سے محرومی ای اہم وجہ ہے۔ کسان کو ریلیف پیکج کے لئے جس طرح مسائل کا سامنا رہا ہے اس کا اندازہ صوبائی دارالحکومت لاہور اور ملک کے مختلف شہروں کسان کی طرف سے کئے جانے والے احتجاج سے لگایا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

کپاس کی 28فیصد معاشی ترقی کے اہداف میں کمی کو ذہن نشین نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس حقیقت کا احاطہ ضروری ہے اس سے شعبہ ٹیکسٹائل بھی بری طرح متاثر ہو گا۔ ان دنوں چین کی طرف سے ہمارے شعبہ سپننگ میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کے لیے کپاس کی پیداوار میں کمی سے کئی اہم نوعیت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔جبکہ رہی سہی کسرپیش کردہ بجٹ نے نکال د ی ہے۔

بجٹ میں شعبہ سپننگ اور برآمدات کے اعلیٰ سطحی صنعت کاروں کو مد نظر رکھ کر مخصوص پالیسیاں تشکیل دی گئی ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں شعبہ ٹیکسٹائل کے اندر عدم توازن قائم ہونے سے مقامی مارکیٹیں بھی بری طرح متاثر ہو ں گی۔ کیونکہ اس سے منسلک چھوٹی بڑی صنعتیں ڈائننگ ، نٹنگ، ہوزری، ایمبرائیڈری اور سٹچنگ وغیرہ کے شعبے ایک مرتبہ پھر شدید ترین بحران کی زد میں آئیں گے۔

جس کے نتیجہ میں بے روزگاری میں اضافہ ہونا فطری سا عمل ہو گا۔
صنعتی شعبہ اور تجارتی شعبے کے لیے حکومت نے بجٹ میں کوئی ایسی تجویز یا فنڈ مختص کرنے کا اعلان نہیں کیا جس سے بہتری کی کوئی توقع کی جا سکے۔ اب صنعتی ، تجارتی اور زرعی شعبہ جو گزشتہ کم وبیش ڈیڑھ عشرے سے توانائی کے شعبہ میں رواں دواں بحران کے باعث شدی بری طرح متاثر ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے توانائی شعبہ کے لیے صرف 130ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا جبکہ اس کے مقابلے میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے188 ارب روپے مختص کئے گے۔

1675 ارب روپے کا مجموعی ترقیاتی بجٹ مرتب کیا گیا جس سے یہ تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ حکومت بجٹ کو معاشی و اقتصادی زاویوں سے ہٹ کر کہیں زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ چاہتی ہے۔ ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ پیش کردہ بجٹ درحقیقت مخصوص اشرافیہ کے طبقے کو فوائد پہنچائے گا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں صنعتی تجاری حلقے بلاشبہ اچھی سوچ رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ صنعت و تجارت و عام آدمی کے لحاظ سے موجودہ حکومت سے زیادہ کوئی اور ان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔

لیکن حکومت نے بجٹ میں پیش کردہ اپنے اہداف اور تجاویز سے تمام حلقوں کو مایوس کیا ہے۔غربت میں کمی کا اگرچہ دعویٰ کیا جارہا ہے مگر سرکاری ملازمین 10فیصد تنخواہوں میں اضافے پر سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 15 ارب مختص کر دینے سے ہی ثابت ہو جاتا ہے کہ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے پیچھے مہنگائی کا بے لگام ہوتا ہوا ہجوم کچھ اور داستان بیان کر رہا ہے۔

ٹیکس نیٹ ورک میں حکومت اور اس کے تمام ذیلی ادارے اپنی غیر موثر اور غیر حقیقی پالیسیوں کے باعث اضافہ کرنے میں ناکام رہے ۔ بجٹ خسارہ 1276 ارب رہا اور 150ارب کے پھر سے نئے ٹیکس لگا دئیے گے۔ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ ورک میں شامل کرنے کے لیے ٹیکس شرح نیٹ ورک میں شامل کرنے کے لیے ٹیکس شرح بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی۔ کارپوریٹ ٹیکس میں 31 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا اور 30لاکھ جائیداد کی خرید و فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

وطن عزیز میں توانائی بحران سال با سا ل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حکومت توانائی کے شعبے کو اس بجٹ میں بھی اپنی اہم ترجیحات میں شامل نہیں کر سکی۔ ملک میں امیر طبقہ امیر تر اور غریب طبقہ غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں ایک مخصوص طبقہ اپنی من مرضی چلاتے ہوئے گردش زرد کو بری طرح متاثر کر رہا ہے ۔ بڑے بڑے پلازوں کی تعمیر اور فروخت پر کوئی ٹیکس نہیں اور 30 لاکھ سے زائد کی خریدوفروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار صنعتی شعبہ میں مزید سرمایہ کاری کا تقاضا کرتے ہیں تو رئیل سٹیٹ کے شعبہ میں محکمہ مال کی ازسر نو اصلاح کی جائے اور اس کا تمام ڈھانچہ نئے سرے سے تشکیل دیا جائے۔ سرکاری نرخوں اور پرائیوٹ نرخوں کے درمیان توازن برقرار رکھ کر رجسٹریوں کی شرح قیمت حقیقی بنائی جائے اور اس پر ٹیکس عائد کر کے تمام رقم درحقیقت صنعتی ، تجارتی اور زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کی صورت میں لانے پر مجبور کیا جائے۔

لیکن ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب تمام حکومتی ذمہ داران خود مخلص ہوں اور سائیڈبزنس کے طور پر رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں مخصوص اشرافیہ کی صفوں میں شامل نہ ہوں۔ وگرنہ وزیر خزانہ کے حوالے سے بھی کئی باتیں دبئی اور بیرون ملک رئیل سٹیٹ کے حوالے سے نتھی کی جاتی رہی ہیں۔ بجٹ نے کارکنوں کو اس مرتبہ بھی کچھ نہیں دیا ،فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں محض ایک ہزار وپے کے اضافے کا اعلان کیا گیا۔

لہٰذا یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر توانائی شعبہ اور صنعت، تجارت اور زراعت پر توجہ نہ دی گئی تو زرمبادلہ کے ذکائر بڑھانے کے لیے غیر ملکی قرضوں پر ہی انحصار کیا جاتا رہے گا۔ افراط زر، جی ڈی پی اور غربت میں کمی کے غیر حقیقی دعوے کئے جاتے رہیں گے لیکن مسائل بڑھ کر بحرانوں کی صورت میں عام آدمی کا جینا محال کر دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taraqiyati Schemoon ka Siasi Budget is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.