تحریک انصاف کی ”صحت کا انصاف“ مہم․․․․

پشاور میں پولیو مہم پھر سکیورٹی خدشات کی بھینٹ چڑھ گئی! پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں جسمانی معزوری کا باعث بننے ولا پولیو وائرس آج بھی موجود ہے

جمعرات 13 فروری 2014

Tehreek e Insaaf Ki Sehat Ka Insaaf Mohim
محبوب احمد:
پاکستان میں دہشت گردی اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں ایک بھی مربتہ ایسا نہیں ہوا جب ملک میں کہیں کوئی ریموٹ کنٹرول یا خود کش دھماکہ یا دستی بموں سے حملہ نہیں ہوا ہو۔ 2014ء کا ابھی صرف ایک ماہ ہی گزرا ہے لیکن واقعات کی بنیاد پر جمع ہونے والے اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں۔

یکم جنوری سے 4جنوری اور پھر 19جنوری تک مسلسل دھماکے ہوتے رہے اور درمیان میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔ ماہرین، مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے نزدیک انتہائی لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان دھماکوں سے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان دھماکون کے ذریعے مسافر بسوں اور ٹرینوں کو نشانہ بنایا گیا، حکومتی عہدیدار ، وزراء، پولیس اہلکار، افسران، حساس ادارون کے سربراہ، رئنجرز اور فوج کے اہلکار، ادیب، بلدیاتی امیدوار، پولیو رضاکار، تاجر صنعت کار، عبادت گزار، غیر ملکی سیاح ، سیاسی شخصیات اور عام راہگیر مرد و خواتین اور بچے تک ہلاک، زخمی یا معزور ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے کے دارالحکومت پشاور میں مشہور قصہ خوانی بازار کے قریب واقع ایک سینما گھر میں دھماکوں کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور 20زخمی ہوئے۔ سینما کے اندر دستی بموں سے دو حملے کئے گئے۔ یادر ہے کہ جس وقت دستی بم پھینکے گئے اس وقت سینما میں 90کے قریب افراد موجود تھے۔ پشاور میں اس سے پہلے بھی شدت پسندی کے متعدد واقعات میں عام شہریوں اور سکیورٹی حکام کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے دوسری طرف وطن عزیز میں جاری انسداد پولیو مہم کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں جسمانی معزوری کا باعث بننے ولا پولیو وائرس آج بھی موجود ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائجیریا میں اس وائرس کا وبا تک ختم نہیں کیا جاسکا۔

ساتھ ہی پاکستان میں پولیو میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں پشاور کو دنیا بھر میں پولیو وائرس کا گڑھ قرار دیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 90فیصد پولیو وائرس جینیاتی طور پر پشاور میں موجود وائرس جیسے ہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2013ء میں 2012ء کے مقابلے میں زیادہ پولیو کیسز سامنے آئے تھے۔


2013ء انسداد پولیو مہم کے حوالے سے انتہائی دشوار اور مہک ترین سال رہا ہے۔ پولیو کی بیماری کے خلاف سرگرم مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال مجموعی طور پر پولیو کے کیسز کی تعداد میں تقریباََ 35فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ پولیو مہم میں حصہ لینے والی ٹیموں پر پہلی مرتبہ سب سے زیادہ حملے ہوئے جس سے اس بیماری کے خلاف مہم میں ایک نیا پہلو بھی سامنے آیا۔

2013ء میں پوری دنیا سے پولیو کے 369کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے صرف پاکستان میں 83کیسز کا اندراج کیا گیا۔ پاکستان میں سال 2012ء میں یہ تعداد 58 تھی۔ گزشتہ برس پاکستان کے قبائلی علاقے (فاٹا) میں پولیو کے سب سے زیادہ 59جبکہ ان سے ملحقہ صوبے خیبر پی کے سے 10جبکہ سندھ اور پنجاب میں سات سات کیسز کا اندراج کیا گیا۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق سکیورٹی کی خراب صورتحال، آگاہی کی کمی اور بعض قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کے سبب گزشتہ برس نومبر کی انسداد پولیو مہم اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور پولیو کی ٹیموں کو کام کی اجازت نہ ملنے سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تقریباَ ڈیڑھ سال سے پولیو سے بچاؤ کی مہم نہیں چلائی گئی جس کی وجہ سے ان علاقوں میں زیادہ بچے اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔خیبر ایجنسی میں بھی کشیدگی اور پولیو کارکنوں پر حملوں کے باعث بیشتر علاقوں میں بچے ان قطروں سے محروم رہے۔ پولیو ٹیموں پر حملوں نے بھی صورتحال کو متاثر کیا ہے اور یہ حملے ایک نئے اور سنگین پہلو کی صورت سامنے آئے ہیں جس سے بہت سارے علاقوں میں پولیو ورکر اپنے فرائض ادا کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔

2013ء میں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت خیبر پی کے اور قبائلی علاقے پولیو کے وائرس سے سب سے زیادہ متاثر رہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پہلے ملک کے دور دراز علاقوں میں والدین اپنے بچوں کے قطرے پلانے سے انکار کرتے تھے لیکن اب بہت سارے شہری علاقوں اور ان کے مضافات میں بھی والدین کی جانب سے بچوں کو یہ قطرے پلانے انکار کے واقعات سامنے آے ہیں۔

گزشتہ ایک سال کے دوران مختلف حملوں میں مجموعی طور پر 30سے زائد کارکن اور ان کے محافظ ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے کے دارالحکومت پشاور میں تحریک انصاف کی ”صحت کاانصاف“ مہم کے تحت انسداد پولیو مہم جو حال ہی میں نئے جوش و جذبے سے ایک مرتبہ پھر شروع ہوئی ہے کے دوران کمسن بچوں کو 9بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین اور ادویات پلانے کے دوران پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس وین پر فائرنگ ار جوابی کارروائی میں ایک شدت پسند مارا گیا۔

پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر موسی زئی میں مسلح عسکریت پسندوں نے پولیو مہم ڈیوٹی پر مامور پولیس وین پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور مارا گیا جبکہ دوسرے کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبر پی کے میں 5لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے انسداد مہم کے دوران شاندار خدمات انجام دینے والے پولیو رضا کاروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

”صحت کا انصاف“ مہم کے موقع پر شہر مین سخت حفاظتی انتظامات کیلئے تقریباََ 4ہزار پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں، اگرچہ حکام کی جانب سے اتوار کو شہر میں موٹر سائیکل چلانے پر بھی پابندی عائد کی گئی لیکن اس پابندی پر مکمل طور پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیا گیا۔ صوبائی وزیر صحت شوکت علی یوسف زئی نے مہم کے بارے میں بتایا تھا کہ پہلے مرحلے میں پشاور کی 50یونین کونسلوں میں بچوں کو پولیو سمیت 9بیمارویوں سے بچاؤ کی ویکسین اور ادویات دی جائیں گی۔

اس مہم کے دوران بچوں کو ڈینگی کے مرض سے بچاؤ اور ان کو آگاہی بھی فراہم کی جائے گی۔ بچوں کو ڈینگی کے مرض سے بچاؤ اور ان کو آگاہی بھی فراہم کی جائے گی۔مہم میں 2420 موبائل ٹیمیں، 6000رضاکار اور 2500تبدیلی رضا کار حصہ لے رہے ہیں۔ پشاور کے بعد اس مہم کا دائرہ صوبے کے دیگر اضلاع تک بھی پھیلا جائے گا۔ صوبے کے 12اضلاع میں بچوں کو امراض سے بچاؤ کا کورس مکمل کرنے والوں کو ایک ہزار روپے نقدر دیے جائیں گے جبکہ 12اضلاع میں حاملہ خواتین کو دوران حمل دو مرتبہ زچگی کے بعد ایک مرتبہ چیک اپ کرانے کی صورت میں 2700روپے دئیے جائیں گے جو ایم این سی ایچ کے تحت ہوں گے۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چند دن پہلے پشاور میں ”صحت کا انصاف“ پروگرام کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا، تاہم بعض نامعلوم وجوہات کی بنا یہ مہم دوسرے ہی دن ملتوی کردی گئی تھی۔ اس سے پہلے پشاور میں پولیو مہم کو بھی موٴخر کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پی کے اور قبائلی علاقوں میں حالیہ چند مہینوں کے دوران پولیو کارکنوں پر حملوں میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے اب تک درجنوں رضاکار اور ان کی حفاظت پر مامور اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں، ان حملوں کی وجہ سے محکمہ صحت کے اہلکار، اساتزہ اور رضاکار انسداد پولیو مہم میں حصہ لینے سے بھی انکار کرتے رہے ہیں۔

پشاور میں ”صحت کا انصاف“ مہم میں سکیورٹی خدشات کی بناء پر اساتزہ حصہ لینے سے انکار کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے مہم کیلئے 9ہزار اساتزہ کو طلب کیا گیا تھا جن میں 3ہزار خواتین ٹیچرز شامل تھی۔ ٹیچرز کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک سکیورٹی بہتر نہیں بناتی وہ پولیو یا کسی بھی ہیلتھ مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اساتزہ نے 6ماہ سے کسی بھی حکومتی مہم میں حصہ بننے سے بائیکاٹ کررکھا ہے۔

پشاور پولیس نے انسداد پولیو مہم کیلئے جو سکیورٹی پلان تیار کیا ہے اس کے مطابق شہر کو مختلف زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پولیو مہم کی مانیٹرنگ کیلئے شہر میں مانیٹرنگ روم بھی قائم کیا گیا ہے۔ انسدادد پولیومہم والے علاقوں کے داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کر کے موٹر سائیل کی ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ مہم کے دوران دیگر اضلاع سے پولیس کی نفری بھی بلوائی گئی ہے۔

سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار بھی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔یہاں قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستان جو امن کا گہوارہ تھا اس کو ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو تو اس کی ذمہ داری فوراََ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والاملک پاکستان ہی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی میں جو بیرونی اور اندرونی عوامل شامل ہیں ان سے تمام ذی شعور انسان بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کو جو عناصر ہوا دے رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گزشتہ چند برس میں پاکستان میں ہزاروں معصوم شہری اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں، کئی گھر اور کئی سوہاگ اجڑے، کئی ماؤں کی گود خالی ہوگئیں۔ پاکستان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ دہشت گردی کا ہے کہ جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھا ہوا ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے انسداد کیلئے ٹھوس اقدمات کئے جانے اور قبائلی علاقوں میں باقاعدہ آپریشن کے دعوے کئے جاتے ہیں اور اخبارات میں آئے روز دہشت فردوں کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آتی ہیں لیکن ایک عام شہری ان اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتا اور اس سلسلے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہور ہا ہے وہ کسی بڑی اور گہری سازش کا پیش خیمہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tehreek e Insaaf Ki Sehat Ka Insaaf Mohim is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 February 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.