وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم

عام شہریوں اور کئی وکلاء کا کہنا تھا کہ حکمران عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے مگر اس فیصلے کے بعد یہ بات پھر ثابت ہو گئی کہ پاکستان میں عدالتیں واقعی آزاد ہو گئی ہیں

بدھ 20 اگست 2014

Wazir e Azam Or Wazir e Aala K Khilaf Muqadama Darj Karne Ka Hukam
ایف ایچ شہزاد:
لاہور کی سیشن عدالت نے منہاج القرآن کی درخواست پر سانحہ ماڈل ٹاوٴن میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سمیت 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ منہاج القرآن کی طرف سے دی گئی درخواست میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وزیر قانون رانا مشہود، سابق سی سی پی او چودھری شفیق گجر، سابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار، آئی جی پنجاب اور دیگر اعلیٰ حکومتی و سرکاری شخصیات کو نامزد کیا گیا ہے۔

قانونی حلقوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم کو ملک میں آزاد عدلیہ کی علامت قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

منہاج القرآن کی درخواست میں جس قدر ہیوی ویٹ سیاستدانوں، حکومتی شخصیات اور اعلیٰ پولیس افسروں کو نامزد کیا گیا تھا عام شہری اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ عام شہریوں اور کئی وکلاء کا کہنا تھا کہ حکمران عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے مگر اس فیصلے کے بعد یہ بات پھر ثابت ہو گئی کہ پاکستان میں عدالتیں واقعی آزاد ہو گئی ہیں۔

ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 22 اے اور 22 بی کے تحت دائر درخواستوں میں سیشن عدالتیں عام طور پر دو طرح کے فیصلے دیتی ہیں۔ کچھ درخواستوں میں فاضل ججز پولیس کو حکم دیتے ہیں کہ پولیس ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 کے تحت درخواست گزار کی درخواست وصول کرے اور اس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے جبکہ بعض درخواستوں پر فاضل عدالتیں پہلے مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق تفتیش کا حکم دیتی ہیں۔

مذکورہ درخواست میں بھی ایڈیشنل سیشن جج راجہ محمد اجمل خان نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت 21 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاوٴن کا مقدمہ مدعی کی درخواست کے مطابق درج کرکے قانون کے مطابق تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن جواد حامد کی طرف سے سینئر وکیل منصورالرحمن آفریدی کے توسط سے دائر درخواست میں موٴقف اختیار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے ایماء پر کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور درجنوں کارکن زخمی ہوئے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکومت نے جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کی درخواست پر پرچہ درج نہیں ہونے دیا۔ پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔ پولیس نے اپنی مدعیت میں جو ایف آئی آر درج کی ہے وہ دو پہلووٴں سے ناقابلِ قبول ہے۔

اولاً اس میں واقعے کے ذمہ دار افراد کو نامزد ہی نہیں کیا گیا جبکہ پولیس کے براہِ راست ملوث ہونے کی وجہ سے غیرجانبدارانہ تفتیش کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے متعدد قانونی دلائل دئیے۔ اس کے جواب میں سرکاری وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر پہے ہی درج ہو چکی ہے مزید ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی تفتیش کر رہی ہے۔

جے آئی ٹی کے بار بار بلانے کے باوجود عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے لوگوں نے رجوع نہیں کیا جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ فاضل جج نے اندراجِ مقدمہ کی اس درخواست میں متعدد سماعتیں کیں، پولیس سے ریکارڈ طلب کیا اور فریقین کے دلائل کے بعد چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی پہلی ایف آئی آر کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس سانحے کے دوران جاں بحق یا زخمی ہونے والے کسی شخص کا ذکر نہیں۔

تحریری فیصلے کے مطابق تھانہ فیصل ٹاوٴن کے ایس ایچ او کو حکم دیا گیا ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کی درخواست کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاوٴن کا مقدمہ درخواست گزار کی مدعیت میں درج کیا جائے اور پھر قانون کے مطابق اس کی تفتیش کی جائے۔ سیشن جج نے اپنے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2001ء کے واجد علی بنام سندھ حکومت کے ایک فیصلے کو بھی بنیاد بنایا ہے جس میں ایک بیوہ کی درخواست پر اس کے شوہر کے قتل کی تیسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا کہ ایس ایچ او فیصل ٹاوٴن کو منہاج القرآن کی درخواست پر بھی مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا۔ فاضل عدالت کے اس فیصلے کے بعد دو قانونی پہلووٴں پر بحث کا آغاز ہو گیا۔ ایک یہ کہ کسی مقدمے میں دوسری ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے یا نہیں اور دوسرا یہ کہ آئین کا آرٹیکل 248 وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو فوجداری مقدمے کی پروسیڈنگ میں کس حد تک استثنیٰ دیتا ہے۔

جہاں تک دوسری ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ ہے اس میں فاضل عدالت نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو بھی بنیاد بنایا جبکہ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس سمیت کئی مقدمات میں ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ اس بارے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن میں 14 افراد جاں بحق ہو چکے اس لئے اس سانحے کی ایف آئی آر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی مدعیت میں ہی درج ہونی چاہئے۔

ورنہ قانونی تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک فوجداری مقدمات میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو حاصل استثنیٰ کی بات ہے تو اس پر قانونی و آئینی ماہرین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت کسی بھی فوجداری مقدمے میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو اُن کے عہدے کی مدت کے دوران عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے نہ ہی تفتیش کی جا سکتی ہے۔

تاہم سپریم کورٹ نے ظہورالٰہی بنام ذوالفقار علی بھٹو کیس میں قرار دیا ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بھی متعدد عدالتی فیصلے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 248 کا اطلاق ایسے مقدمات پر نہیں ہوتا جس میں ذاتی نوعیت کا جرم سرزد ہوا ہو۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر 248 کے تحت حاصل استثنیٰ کو تسلیم کر لیا جائے تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدوں کی مدت ختم ہوتے ہی عام مقدمات کی طرح اس مقدمے کی پروسیڈنگ کا بھی آغاز ہو جائے گا۔


لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت محمود چوہان کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج کے حکم پر پولیس مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے تاوقتیکہ اعلیٰ عدالت اس فیصلے کو معطل یا کالعدم قرار نہ دے۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے چیئرمین محمد اظہر صدیق نے اس بارے اپنی قانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد پولیس فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔

جب تفتیشی افسر ملزمان کو طلب کرے تو پھر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اس بارے درخواست دے سکتے ہیں کہ اُن کو آئین کا آ رٹیکل 248 استثنیٰ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایڈیشنل سیشن جج کے اس فیصلے کے خلاف دستور کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ درخواست میں ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اْن کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خلاف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے فوجداری مقدمے کے اندراج کا عدالتی حکم دیا گیا ہے لہٰذا اُن پر آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ کا اطلاق نہیں ہو گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء ڈاکٹر باسط اور آفتاب باجوہ کا کہنا ہے کہ سیشن جج کا فیصلہ بہت واضح ہے جس میں اُن تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو درخواست گزار نے نامزد کیا ہے۔ تاہم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو استثنیٰ حاصل ہے۔ قانونی ماہرین کی ایسی متضاد آراء کے مقابلے میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ منہاج القرآن کی درخواست میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت اعلیٰ حکومتی اور سرکاری شخصیات نامزد ہیں۔

اس لئے معاملہ لیگل برانچ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اْن کی مشاورت اور گائیڈلائن کی روشنی میں ہی قانونی کارروائی کا آغاز ہو گا۔ پولیس نے اپنے اس موٴقف کو عملی طور پر بھی اُسی وقت ثابت کر دیا جب منہاج القرآن کے وکلاء عدالتی حکم لے کر تھانہ فیصل ٹاوٴن پہنچے۔ انہوں نے عدالتی حکم اور درخواست تھانے کے محرر کو وصول کروایا۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او تھانے میں موجود نہیں۔

وکلاء نے فون پر بات کروانے پر اصرار کیا مگر انہوں نے کہا کہ لیگل برانچ کی رائے کے بعد درخواست پر کارروائی ہو گی۔ دوسری طرف اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ سرکاری وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ کے لئے رٹ درخواست تیار کر لی ہے جس میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اندراج مقدمہ کے لئے ڈائریکٹر منہاج القرآن کی طرف سے دائر درخواست کا جائزہ لیں تو وہ بالکل واضح موٴقف پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 16 اور 17جون کی درمیانی شب منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری اْس وقت کے ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کی قیادت میں سیکرٹریٹ کے باہر لگی رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھی۔

اس موقع پر دیگر پولیس افسران بھی موجود تھے۔ توڑ پھوڑ کا شور سن کر لوگ اور منہاج القرآن و عوامی تحریک کے کارکن جمع ہو گئے تو پولیس نے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ جس کے نتیجہ میں خواتین سمیت متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ پولیس نے نہ صرف گوشہ درود کی حرمت پامال کرتے ہوئے اس پر گولیاں برسائیں بلکہ وہاں سے قیمتی سامان بھی لْوٹ لیا۔

اس بارے عمل کے دوران پولیس کے ٹاوٴٹ گلو بٹ بھی سیکرٹریٹ کے سٹاف اور مہمانوں کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتا رہا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے یہ تمام کارروائی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ایما پر کی ہے۔ اس سنگین واقعے پر وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ سے تحقیقاتی کمشن ہٹانے کی جو درخواست کی تھی اُس درخواست پر بننے والا کمشن اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ حکومت کو بھجوا چکا ہے۔

پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن نے اس کمشن کا بائیکاٹ کیا اور کارروائی کے کسی مرحلے پر اُنہوں نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمشن کی رپورٹ میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ یہ ذمہ داری حکومت پر عائد کر دی ہے کہ وہ رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کرے۔ دوسری طرف منہاج القرآن کے وکلاء کا کہنا ہے کہ کمشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت پنجاب کو مکمل ذمہ دار ٹھہرایا ہے جس کے سربراہ وزیراعلیٰ ہیں۔

حکومت نے آٹھ روز تک کمشن کی رپورٹ دبائے رکھی۔ منہاج القرآن اور عوامی تحریک سمیت کئی سیاسی و قانونی حلقوں کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر کسی عدالت نے اُن کو ذمہ دار قرار دیدیا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ اب اْن کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت کئی سیاسی رہنماوٴں نے اس مطالبے کی تائید کی ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) نے موٴقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ عدالتی کمشن نے اگر اْن کو سانحہ ماڈل ٹاوٴن کا ذمہ دار قرار دیا تو وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اگر سیشن جج نے اندراج مقدمہ کا حکم دیا ہے تو قانون اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کا حق بھی دیتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی۔ جس کے بعد اندراج مقدمہ کے حکم۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استثنیٰ اور دوسری ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق فیصلہ عدالتوں میں ہی ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir e Azam Or Wazir e Aala K Khilaf Muqadama Darj Karne Ka Hukam is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 August 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.