ضرب عضب اور اداروں کا کردار

پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ مقروض اور غریب پاکستان اس جنگ میں اندوہناک جانی اور مالی قربانی دے چکا ہے۔ یہ جنگ ہنوز جاری ہے۔ ہولناک سانحہ کوئٹہ گواہی دے رہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ طویل عرصہ لڑنی پڑے گی

جمعرات 18 اگست 2016

Zarb e Azb or Idaroon Ka Kirdar
قیوم نظامی:
پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ مقروض اور غریب پاکستان اس جنگ میں اندوہناک جانی اور مالی قربانی دے چکا ہے۔ یہ جنگ ہنوز جاری ہے۔ ہولناک سانحہ کوئٹہ گواہی دے رہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ طویل عرصہ لڑنی پڑے گی افسوس پاکستان کو جنگ میں مبتلا کرنے والا جرنیل آئین اور قانون کی گرفت سے بچ کر بیرون ملک جاچکا ہے۔

بقول ظہیر کاشمیری :۔
ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہوگا
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ
غیر جانبدار دفاعی مبصر متفق ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہولناک اور لہو لہو جنگ میں سیاسی قیادت کا عملی کردار مایوس کن رہا ہے۔ آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک سیاسی اور عوامی محاذ پر ملکی سلامتی اور بقا کی جنگ بے دلی اور بے حسی سے لڑی گئی ہے۔

(جاری ہے)

دونوں لیڈروں نے اجلاس کیے بیانات جاری کیے، اربوں روپے کی اشتہاری مہم چلائی، میگا کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے اور دونوں جنگ کی عملی سیاسی قیادت کرنے سے قاصر رہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ذاتی خاندانی مالی مفادات پاکستان کی بجائے بیرونی ممالک سے جڑے ہوئے ہیں اور دونوں پاکستان میں صرف حکمرانی کرنے اور مبینہ طور پر مال بنانے کیلئے آتے ہیں۔

جن لیڈروں کے اثاثے پاکستان سے باہر ہوں ان سے سو فیصد ملکی وفاداری کی توقع کس اصول پر کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے جذبے اور جنون کا عملی مظاہرہ کرکے پاکستان میں مقبول ترین لیڈر کا مقام حاصل کرلیا ہے حالانکہ یہ مقام میاں نواز شریف کو حاصل کرنا چاہیئے تھا جو تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور کپتان ہیں تجربے کی کمی نہیں ہے ان کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بطور مرکزی کپتان لیڈ کرنا چاہیئے تھا مگر افسوس وہ تو سپہ سالار کو فالو کررہے ہیں۔

آئینی طور پر بااختیار وزیراعظم کی کمزوری، نااہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے سول ملٹری تناؤ بلکہ شدید غصہ پیدا ہوا ہے۔ اگر وزیراعظم جنگ کی اونر شپ اپنے پاس رکھتے تو آرمی چیف کو حکومت پر تنقید کا موقع نہ ملتا۔اندرونی بیرونی دہشتگردی نے ملکی سلامتی اور بقا کو شدید اور سنگین خطرات میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں سلامتی اور دفاع کے واحد ادارے افواج پاکستان کے حوصلے پست کرنے، اسے کمزور اور غیر مستحکم بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

بھارت کے انتہا پسند عناصر کانگرس پر تنقید کرتے ہیں کہ اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستانی فوج کی کمر توڑنے کا تاریخی موقع گنوا دیا۔ اگر خدانخواستہ ، خدانخواستہ پاکستان بطور ریاست عدم استحکام کا شکار ہو ا تو پاک فوج کو سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑیگا۔ ان حالات میں فوج کی جائز خواہش ہے کہ سویلین حکومت اور سیاستدان سنگین چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سرگرم اور پرجوش عملی محبت کا مظاہرہ کریں۔

پاکستان کے کتنے سیاستدان ہیں جنہوں نے فاٹا کے علاقوں کا دورہ اور آئی ڈی پیز کے ساتھ جماعتی مالی تعاون کیا ہے شہیدوں کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں۔ کتنے سیاستدان ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے اہم اور نازک مسئلے پر اپنی جماعتوں کے اجلاس بلائے ہیں اور پارٹی کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ قومی جنگ میں عملی طور پر شریک ہوں۔ وہ پولیس، رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں سے تعاون کریں۔

پاکستان حالت جنگ میں ہے عوام اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں جبکہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں شرمناک بلکہ خطرناک بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جو ”سرکاری وظیفوں اور مراعات“ سے مالا مال ہیں وہ عاقبت نااندیشانہ بیانات جاری کرکے پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ وزیراعظم اپنے اتحادیوں کے شرمناک بیانات پر چپ سادھ لیتے ہیں جس سے شک پیدا ہوتا ہے کہ شاید ایسے بیانات انکی آشیرباد سے جاری کیے جارہے ہیں۔


الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر حکومتی گورنینس پر بولتے اور چیختے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جن کا وزیراعظم پاکستان نے کبھی براہ راست جواب بھی نہیں دیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سویلین حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کیا جس کا اعتراف وزیراعظم نے مانیٹرنگ کیلئے ٹاسک فورس بنا کر کرلیا ہے۔ آئینی طور پر وزیراعظم نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے ذمے دار تھے مگر وہ حالت جنگ کے باوجود اپنی ذمے داری پوری کرنے سے قاصر رہے ہیں جسے مجرمانہ غفلت قراردیا جائیگا۔

وزیراعظم نے قوم کو کبھی بریف نہیں کیا کہ 2013ء سے 2016ء تک کتنے دہشت گردوں کو سول عدالتوں سے سزائیں دلائی گئی ہیں۔ کرمنل جسٹس کو فعال اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے عدالتی اصلاحات میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کی مدت 15جولائی سے ختم ہوچکی ہے جسکے تحت ہوم منسٹر پنجاب شجاع خانزادہ شہید کے مقدمہ سمیت دہشت گردی میں ملوث مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔

وزارت قانون کی سمری وزیراعظم کے سیکریٹریٹ میں پڑی ہے۔ ابھی تک فاٹا اصلاحات کی منظوری زیرالتواء ہے۔ مردم شماری اور مقامی حکومتوں کا قیام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سنگدلانہ بے حسی کا شکار ہے۔ حکومت ابھی تک پولیس کو اس قابل نہیں بناسکی کہ وہ فوج کے تعاون کے بغیر امن و امان کے قیام کی بنیادی ذمے داری پوری کرسکے۔ رینجرز کے اختیارات کے سلسلے میں عسکری قیا دت کو زچ کیا جاتا ہے۔

فوج کو سندھ اور پنجاب میں آپریشن کرنے سے روکا جاتا ہے۔ نیکٹا کو غیر فعال رکھا جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مدارس کی رجسٹریشن اور نصاب میں تبدیلی کی سکت نہیں ہے۔ ان تشویشناک حالات میں آرمی چیف کی حکومت کی کارکردگی پر دوسری بار تنقید بلاجواز نہیں ہے۔ عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے لڑی جانے والی طویل جنگ کی قیادت کرنیوالے سپہ سالار کا فرض ہے کہ وہ جنگ کے مراحل کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیں۔

عدلیہ کے جج بھی حکومتی کارکردگی کے بارے میں آئے روز شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر اپنے حصے کا کام جذبے اور جنون کے ساتھ مکمل کرتی تو سانحہ کوئٹہ کی ذمے داری خفیہ ایجنسیوں پر ڈالی جاسکتی تھی۔ وزیراعظم اگر خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ اپنے اتحادیوں سے ان پر الزام تراشیاں کرانے کی بجائے ایجنسیوں کے سربراہوں کو تبدیل کردیں مگر وہ اپنی یہ آئینی ذمے داری شاید پوری کرنے کے اہل نہیں رہے کیونکہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں۔

انکی اخلاقی اتھارٹی مجروح اور آئینی رٹ محدود ہوچکی ہے۔
جب ملک حالت جنگ میں ہو تو چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال بنانا پڑتا ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں اور کارکردگی کی نگرانی بھی کرتے ہیں تاکہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ جب سول حکومت آئینی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر رہتی ہیں تو طاقتور ادارے کو آئینی دائرے سے باہر نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔

بھارت کے وزیراعظم مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے بارے میں گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیان دیا ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی تشویشناک صورتحال سے توجہ ہٹانا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بوجوہ مودی کے خلاف بیان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا دم غنیمت ہے جن کا سب کچھ پاکستان میں ہے انکے خلاف کوئی اخلاقی اور مالی سکینڈل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قومی مفادات کی بے باک ترجمانی کرتے ہیں۔

انہوں نے بھارت کے وزیرداخلہ کے سامنے بھی آنکھیں نیچی نہ کیں اور کشمیریوں کا مقدمہ جرات مندی سے پیش کیا۔ موزوں شخصیت جنرل(ر) ناصر جنجوعہ کو نیشنل ایکشن پلان مانیٹرنگ ٹاسک فورس کا چیئرمین بنادیا گیا ہے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر بدستور غفلت کا مظاہرہ کرتی رہیں تو اسکی ذمے داری پاک فوج کے نمائندے پر ڈالی جا سکے۔ ”تیرے ذہن کی قسم خوب انتخاب ہے“(حبیب جالب)۔

وزیراعظم اختیارات تو خود استعمال کرتے ہیں مگر ذمے داریاں شفٹ کرتے رہتے ہیں۔ ہر بڑے قومی سانحہ کے بعد سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت نمائشی فیصلے کرنے سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔ سانحہ کوئٹہ تقاضا کرتا ہے کہ جنگی قومی حکومت قائم کی جائے جس میں ایسے سچے کھرے اہل اور محب الوطن افراد شامل ہوں جو پاکستان کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کیلئے تیار ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Zarb e Azb or Idaroon Ka Kirdar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.