اعلیٰ عہدوں پر نااہل براجمان

جعلی ڈگریوں کی بھرمار

بدھ 30 نومبر 2016

Aala Ohdon Par Na Ehal Barajmaan
راحیلہ مغل :
جعلی ڈگری ایک ایسا جرم ہے جو حق دار کواس کے حق سے محروم کرتا ہے اور مجرموں کو صف اول کی اہمیت شخصیت میں شامل کردیتا ہے ۔ اس طرح اصل ڈگریوں والے سوٹ بوٹ پہن کر انٹرویو کی قطار میں لگے رہتے ہیں اور جعلی ڈگریوں والے اہم عہدوں پر فائز ” خدمت “ شروع کر دیتے ہیں۔
آج سے چند سال پہلے جب ہمارے سیاست دان جعلی ڈگری کی زد میں آئے تو اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کاایک جملہ بہت مشہور ہوا کہ ” ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی یانقلی “ ۔

رفتہ رفتہ اصلی یا نقلی ڈگری کا ذکر کچھ اس طرح سے ہمارے ایوانوں میں شروع ہوا کہ عوام کے کئی ” خدمت گاروں کی محنتیں بربادہوگئیں اور انہیں سیاست کے میدان سے فارغ کردیا گیا اور پھر حکومت نے مشکوک ڈگریوں کے حامل اراکین پارلیمان کو بچانے کیلئے گریجویشن کی شرط ختم کردی۔

(جاری ہے)


لیکن سیاست دانوں کی جعلی ڈگریوں سے اٹھنے والی چنگاری دینے کی بجائے ایک آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔

تقریباََ تمام سرکاری محکموں میں جعلی ڈگریوں پر ہونے والی تعیناتیاں اس زد میں آگئیں اور کئی ملازمین کو برطرف کردیاگیا لیکن ہنوز کئی ملازمین ایسے ہیں جو جعلی ڈگریاں لے کر ملازمتیں کر رہے ہیں اور جب حکومت انہیں ڈگریاں چیک کرنے کا نوٹس بھیجتی ہے تو یہ ملازمین عدالت سے STAYلے آتے ہیں ۔ اس سے قبل محکمہ پولیس، محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازمین جعلی ڈگری کی بنا پر طرف کیا جارہا تھا اور پھر آئی اے کے ملازمین کو بھی فارغ کیاگیا مگر اب محکمہ صحت میں بھی کچھ لوگ جعلی ڈگریاں حاصل کرکے عوام کی صحت اور زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔


پاکستان کی قومی ائیرلائن ، پی آئی اے ، میں مشکوک ڈگری ہولڈرز کیخلاف کارروائی کاآغاز ہوا تو ایسے کئی ملازمین عدالتی سٹے کے پیچھے جاچھپے اورآج تک ڈھٹائی کے ساتھ اپنی نوکری پر براجمان ہیں ۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہم تعلیم کی روشنی سے اپنے معاشرے کومنور کرنے کی بات کرتے ہیں وہیں جعلی ڈگریاں ہمارے معاشرے کی تاریکی میں اضافہ کررہی ہیں ۔


جعلی ڈگریوں کامسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی اس جعل سازی کے لئے مقدمات سامنے آچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ کے بارے میں ایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ وہاں آن لائن جعلی ڈگریاں جاری کرنے والی 300ویب سائٹس کام کررہی ہیں ان کاکاروبار 500ملین ڈالر پر محیط ہے ۔ اس طرح یورپ کے جعلی تعلیمی ادارے اور ویب سائٹس 50 ملین ڈالر کے عوض ہر سال 15ہزار افراد کو تعلی اسنادیتی ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں امریکی اور پوری اداروں کی جاری کردہ جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کام کررہے ہیں۔

ان میں ڈاکٹرز انجینئرز، نفسیات دان اور سائنسدان بھی شامل ہیں۔
امریکہ میں 1980ء میں سامنء آنے والا Dipscamآج بھی جعلی ڈگریوں کاسب سے بڑا سکینڈل تصور کیاجاتا ہے ۔امریکہ کی یہ ” ڈپلومہ ملز“ آج بھی جعلی ڈگریوں کا دھنداپورے یورپ اور امریکہ میں چلا رہی ہیں ۔
وہ امریکا جوجعلی ویزوں اور پاسپورٹ پر سفر کرنے والوں کو سخت سزائیں دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف ایسے قانون بناتا ہے کہ عام آدمی کاجینا مشکل ہوجاتا ہے ، جعلی ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں کو کیوں چلنے دیتا ہے ؟ شاید اس لیے کہ جب جعلی ڈگری ہولڈرز ایشیاء افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کام کرکے بھاری زرمبادلہ امریکہ لاتے ہیں اور اصلی ڈگری والے امریکہ اور یورپ میں کام کرکے اپنے ملک کی معاشی خوشحالی میں اپنا کردارادا کرتے رہیں ۔


گزشتہ برس پاکستان کے بارے میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمزنے بتایا کہ Axactنامی کمپنی مختلف یونیورسٹیز کے نام پر 370 سے زائد ویب سائٹس کی مدد سے ہزاروں ڈالر کی عوض دنیا بھر میں بوگس ڈگریاں فراہم کررہی ہے ۔ اس رپورٹ کے بعد ایف آئی اے نے کارروائی کی اورسینکڑوں کی تعداد میں غیرترسیل شدہ ، ڈگریاں ، کمپیوٹر سرورزاہم دستاویزات اور دیگر سامان اپنی تحویل میں لے لیا۔

جعلی ڈگریاں بنانے والے یہ تعلیمی ادارے ہرروز دنیابھر میں سینکڑوں ہزاروں افراد کو ڈاکٹرز اور انجینئرز بنا رہے تھے۔ ان اداروں نے غیر منظور شدہ تعلی اداروں سے الحاق کررکھا تھا ۔
چیئرمین پی آئی اے ناصر جعفر نے بھی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں انکشاف کیاہے کہ قومی ائرلائن میں 400سے زائد ملازمین کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں جن کے خلاف گھیراتنگ کیاجارہا ہے جبکہ اس سے پہلے 300ملازمین کو جعلی ڈگری رکھنے کی بنا پر فارغ بھی کیاجاچکا ہے ۔

مجموعی طور پر 1597 ملازمین کی ڈگریاں مشکوک ہیں ۔
پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات متعدد ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور ٹیکنیکل سٹاف کی جعلی ڈگریوں کا انکشاف ہوا ہے جس پر محکمہ صحت پنجاب نے فوری طور پر تمام شعبہ جات میں تعینات ان افراد کی ڈگریوں کی تصدیق کا فیصلہ کیا ہے اور بوگس ڈگریوں ، ڈپلوماز ، اسناد وغیرہ قانونی کارروائی کا عندیہ دیدیا ہے ۔


باوثوق ذرائع نے بتایا کہ حکومت کو ایک سپیشل رپورٹ ارسال کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں نہ صرف نرسز بلکہ پیرا میڈیکس اورٹیکنیکل افراد کی تعیناتی بھی جعلی ڈگریوں پر ہوچکی ہے بلکہ اب اس میں ڈاکٹربرادری بھی شامل ہوچکی ہے جس پر محکمہ صحت پنجاب کو ٹاسک دیاگیا ہے کہ وہ تمام ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف کی میٹرک سے لے کرآخری ڈگری سمیت اسناد کی تصدیق کروائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aala Ohdon Par Na Ehal Barajmaan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 November 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.