مخدوم امین فہیم کی وفاداری، ذوالفقار مرزا کی بغاوت

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا آصف علی زرداری کے ”یارغار“ تھے۔ انکے درمیان اختلافات کے بارے میں کئی کہانیاں سامنے آئیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو آصف علی زرداری کی ظاہری اور چھپی طاقت کا پورا ادراک تھا۔ اسکے باو جود وہ خم ٹھونک کر اپنے لیڈر اور محسن کے سامنے کھڑے ہوگئے

جمعہ 27 نومبر 2015

Amin Fahim Ki Wafadari Zulfiqar Mirza Ki Baghawat
قیوم نظامی
مخدوم امین فہیم کے خاندان نے جس طرح پی پی پی کے ساتھ نسل در نسل وفاداری نبھائی اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ مخدوم امین فہیم کے والد مخدوم طالب المولیٰ نے اس وقت بھٹو کا ساتھ دیا جب سندھ کے وڈیرے جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان سے خوف زدہ تھے۔ پاکستان کے بااثر خاندان پی پی پی کو ٹانگے اور ریہڑی والوں کی پارٹی سمجھتے ہوئے اسے سنجیدہ سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھے۔

ان حالات میں مخدوم طالب المولیٰ نے اپنے شہر ہالہ میں پی پی پی کی یادگار اور تاریخی ہالہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ طارق عزیز اور معراج محمد خان نے اس کانفرنس میں 1970ء کے انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت کی۔ دونوں کی شعلہ بیاں تقریروں نے کانفرنس کے شرکاء کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔

(جاری ہے)

بھٹو شہید کے خطاب کے بعد پارٹی کے کارکنوں نے انتخاب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

پی پی پی نے 1970ء کے انتخابات میں حیران کن اور غیر متوقع کامیابی حاصل کرکے وفاق، سندھ اور پنجاب میں حکومت تشکیل دی۔ بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کے کئی پرانے رہنما مصطفی جتوئی، عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، مصطفی کھر، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے، معراج محمد خان، آفتاب شیرپاؤ پی پی پی کا ساتھ چھوڑ گئے مگر مخدوم امین فہیم مقامات آہ و فغان اور گونا گوں مشکلات کے باوجود پی پی پی کے ساتھ جڑے رہے۔

انکی وفاداری اور ثابت قدمی پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
جنرل ضیاء الحق ہر قیمت پر پی پی پی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ آمر نے غلام مصطفی جتوئی اور مخدوم امین فہیم دونوں کو وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی۔ دونوں نے اس پیش کش کو مسترد کردیا۔ 2002ء کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی ”کنگ پارٹی“ حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی اسے ایک درجن اراکین اسمبلی کے تعاون کی ضرورت تھی۔

جنرل مشرف نے مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی۔ انہوں نے انکار کردیا البتہ فیصل صالح حیات ، راؤ سکندر اقبال اور پی پی پی کے کئی دوسرے اراکین اسمبلی وزارتوں کیلئے بک گئے۔ مخدوم امین فہیم چونکہ شاعر، کتابوں کے مصنف اور سروری جماعت کے راہنما تھے ان کی زندگی اصولوں اور نظریات کی پابند تھی لہذا وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے اور ہر آمر کو یہ جواب دیتے رہے۔


میں تو اخلاق کے ہاتھوں ہی بکا کرتا ہوں
اور ہوں گے تیرے بازار میں بکنے والے
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں ہر لحاظ سے مخدوم امین فہیم کا استحقاق تھا کہ ان کو وزیراعظم بنایا جاتا مگر آصف علی زرداری نے عیاری اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کردیا کیونکہ وہ خود صدر پاکستان کے منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔

ایک ہی صوبے سے صدر مملکت اور وزیراعظم بننا ممکن نہیں تھا۔ مخدوم امین فہیم پی پی پی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین تھے۔ کاش وہ زرداری حکومت میں وزارت قبول نہ کرتے اور کرپشن کی آندھی سے محفوظ رہتے۔ میرا مخدوم امین فہیم کے ساتھ چالیس سال تک باہمی احترام کا رشتہ قائم رہا۔ چند ماہ پہلے جب وہ موذی مرض کے علاج کیلئے امریکہ روانہ ہوئے تو میری ان سے فون پر گفتگو ہوئی۔

ان سے گزارش کی کہ پی پی پی پنجاب میں زوال پذیر ہورہی ہے اسے بچانے کی فکر کریں۔ انہوں نے امریکہ سے واپسی پر لاہور آکر پرانے جیالوں سے ملاقات کرنے اور مشاورت کا وعدہ کیا افسوس ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ”ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے“۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مخدوم امین فہیم کے جنازے میں شرکت نہیں کی۔

وہ آرمی پبلک سکول کے قومی سانحہ کے بعد پشاور بھی نہیں پہنچے تھے۔ انہوں نے متاثرین زلزلہ کے پاس جاکر اظہار افسوس بھی نہ کیا اور نہ ہی انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں پارٹی کی قیادت کی۔ اخلاقی، سیاسی، جمہوری اور اصولی طور پر انکے پاس پارٹی کی قیادت کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ مخدوم امین فہیم نہایت وضع دار، بردبار اور منفرد طبع کے سیاستدان تھے۔

اللہ ان کے درجات بلند کرے اور انکی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا آصف علی زرداری کے ”یارغار“ تھے۔ انکے درمیان اختلافات کے بارے میں کئی کہانیاں سامنے آئیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو آصف علی زرداری کی ظاہری اور چھپی طاقت کا پورا ادراک تھا۔ اسکے باو جود وہ خم ٹھونک کر اپنے لیڈر اور محسن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ انکی نیت درست تھی رب کائنات نے انکی مدد کی۔

رینجرز نے ان کو تحفظ فراہم کیا اور وہ بلدیاتی انتخابی معرکے میں پی پی پی کے مضبوط قلعے میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر بدین میں رینجرز موجود نہ ہوتے تو ذوالفقار مرزا گروپ کیلئے واضح مارجن سے کامیابی ممکن نہ ہوتی۔ بدین سندھ کا وہ ضلع ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ بھٹو نے بدین کے علاوہ لاڑکانہ اور ٹھٹھہ سے بھی کامیابی حاصل کی تھی۔

بدین سے ہمیشہ پی پی پی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ 2015ء میں پہلی بار ”باغی گروپ“ جیت گیا البتہ اس گروپ کا تعلق بھی پی پی پی سے ہی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور انکی بیگم فہمیدہ مرزا دونوں ٹیلینٹڈ سیاستدان ہیں۔ دونوں سندھ کی سیاست میں نمایاں رہے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بااعتماد قریبی ساتھی تھے۔ ذوالفقار مرزا سندھ کے وزیر داخلہ اور فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی سپیکر رہیں۔

انہوں نے اپنے حلقہ کے عوام کی خدمت کی اور ترقیاتی کاموں میں خصوصی دلچسپی لی۔دوسرے لیڈروں کی طرح انہوں نے نوکریاں نہیں بیچیں۔ وہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے اصل نظریاتی وارث وہ ہیں جبکہ آصف زرداری بھٹو شہید کے راستے اور سیاسی فلسفے سے ہٹ چکے ہیں اور اب وہ ”زرداری لیگ“ کے سربراہ ہیں۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بلدیاتی انتخابات کے دوران بدین سمیت سندھ کے بعض اضلاع کا دورہ کیا۔ جیالوں نے اپنے نوجوان لیڈر کی پذیرائی بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ کی۔ اسکے باوجود بدین میں مرزا گروپ نے واضح کامیابی حاصل کرلی۔ ذوالفقار مرزا نے جب آصف زرداری کی کرپشن کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو میں نے ان کو فون کیا اور پوچھا کہ وہ اپنے مو قف پر کھڑے رہیں گے یا ایک بار پھر اپنے لیڈر سے ہاتھ ملالیں گے۔

ذوالفقار مرزا نے کہا ”نظامی صاحب میں بھی آپکی طرح بھٹو کا پرانا جیالا ہوں مجھے بھٹو شہید کے خون کی قسم کہ میں مر تو سکتا ہوں مگر کبھی جھک نہیں سکتا“۔ اللہ نے ذوالفقار مرزا کو سرخرو کیا۔ خدا کرے انکی کامیابی سندھ کے عوام کیلئے نیک فال ثابت ہو۔ پی پی پی اس سیاسی جھٹکے کے بعد ہوش میں آجائے اور لوٹ مار و کرپشن کو ترک کرے۔ عوامی خدمت کی سیاست کی جانب واپس لوٹ آئے۔

ذوالفقار مرزا کی کامیابی آصف زرداری کی سیاست کے خاتمے کا نکتہ آغاز ہے۔ذوالفقار مرزا نے نئی پارٹی بنانے یا فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔انکے سیاسی مستقبل کیلئے مناسب یہ ہوگا کہ وہ پی پی پی کے اندر ایک نظریاتی گروپ تشکیل دیں جو بھٹو اور بے نظیر کے مشن کی تکمیل کیلئے کردار ادا کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amin Fahim Ki Wafadari Zulfiqar Mirza Ki Baghawat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.