بلوچستان کو تعلیمی بحران کاسامنا

براہمداغ بگٹی نے بھارتی شہریت کیلئے درخواست دیدی ماہراساتذہ کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری

بدھ 21 ستمبر 2016

Balochistan Ko Taleemi Bohran Ka Samna
عدن جی :
بلوچستان میں عیدالاضحی کا نگووائرس کے سائے میں گزری۔ کوئٹہ میں بم دھماکے اور پولیس اہلکاروں پر ہمیشہ کی طرح قیامت ہی گزری کہ ایک وکیل بلال انورکانسی کی ہلاکت کی خبرسن کر سب سنیئر وکیل بھی سول ہسپتال کے گیٹ پر احتجاج کے لئے پہنچ گئے۔ اور یہ سانحہ ہوگیا کہ 80افرادجن میں بیشتر وکلاء تھے چند لمحوں میں موت کی وادی میں چلے گئے۔

ایک گھرسے 5جنازے بھی اٹھے میڈیا کے لوگ بھی بریکنگ نیوز کے چکر میں نشانہ بنے، مگر یہ سچ ہے کہ پوراشہر سکتے میں آگیا۔ اور اس سانحہ کے اثرات رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں کہ اب عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء کابحران ہے۔ جونیئر وکیلوں پر لوگ زیادہ بھروسہ نہیں کررہے لہٰذا عدالتوں میں اگلی تاریخوں کاسلسلہ ہی چلے گا۔

(جاری ہے)

ابھی نہ تو دہشت گردوں تک ہمارے ہاتھ پہنچے ہیں نہ ملزموں کے نیٹ ورک تک رسائی۔

مگر یہ طے ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے کالعدم تنظیموں کے لیڈروں کوب ” ہیرو“ ماننے کا رحجان دم توڑرہا ہے۔ پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگانے والوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی اور مظاہرے بھی ہوئے اور ایسا پہلی مرتبہ یہاں ہوا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ براہمداغ بگٹی نے بھارتی پاسپورٹ کے لئے طویل مذاکرات کے بعد 19ستمبر کو درخواست جمع کروانے کااعلان کیا ہے۔

جنیوا کے بھارتی کمیشن میں درخواست جمع کروادی ہے۔ اب نواب بگٹی کا یہ پوتا بھارتی شہری بن جائیگا۔ اس تمام سلسلے کے پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے اور بھارت براہمداغ بگٹی کو کیسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گایا بلوچستان کے بلوچ براہمداغ بگٹی کی کسی کال پر کیا ردعمل دیں گے ؟ اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہی ہوسکے گا۔ مگرپاکستان نے اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے، یہ سوچنے اور دیکھنے کی بات ضرور ہے۔

جہاں تک بھارت کی بلوچستان میں دلچسپی کاتعلق ہے تو وہ1974 ء سے ریڈیو سے ایک گھنٹہ کابلوچی پروگرام نشرکررہا ہے ا ب اس نے بلوچی ویپ اور موبائل ایپ بھی بلوچی زبان میں شروع کردی ہے۔ جس کا مقصد شرانگیزی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور براہمداغ بگٹی کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا تاکہ بلوچوں کے حوالے سے منفی تاثر کوعام کیا جاسکے۔


بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں توویسے ہی تعلیم کے حوالے سے افسوسناک صورتحال ہے۔ اور ان پڑھ لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیاجانا آسان ہوسکتا ہے خواہ کتنے بھی محب وطن ہوں۔ عالمی یوم خواندگی پر صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال کااعتراف اہم ہے بلوچستان میں سو میں سے 30 بچے ہی سکول جاپاتے ہیں اور ان 30میں سے 10یابارہ پانچویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں۔

ان بارہ میں سے 5یا 6 بچے آٹھویں سے میٹرک تک پہنچ پاتے ہوں گے۔ اس تناسب میں 100 میں 2 بچے یا بچیاں کالج پہنچ پاتی ہیں۔ اس سے بڑا تعلیمی المیہ اداروں اور اساتذہ کے حوالے سے ہے۔ صوبے میں پرائمری سکولوں کی تعداد 12000 ہے 5000 سکول جوا یک ٹیچر اور ایک کمرے پر مشتمل ہیں جبکہ 80 ہزار سکولوں میں سائنس لیب کا تصور تک نہیں ان سکولوں میں توپانی، چار دیواری بجلی اور بیت الخلاء تک نہیں ، ٹرانسپورٹ ناپید ہے جبکہ بلوچستان میں منتشر آبادی کے باعث یہ بہت اہم ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق یہاں900 گھوسٹ سکول ہیں 3لاکھ بچے صرف فرضی لسٹوں میں ہیں۔ البتہ گھوسٹ سکولوں کے ناپ گھوسٹ اساتذہ تنخواہیں وصول کررہے ہیں یوں بہت سے اہم وزراء نواب سینیٹرز کے علاقوں میں بھی تعلیم کے نام پر کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ اور اس وقت بلوچستان کے تمام معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے سیاسی اور معاشی ترقی کے لئے بلوچستان میں متعدد باریہ کہاجاچکا ہے کہ بلوچستان سے ماہر اساتذہ کی نقل مکانی نے صوبے کو تعلیمی بحران سے دوچار کردیا ہے۔

اور اب 80افراد کی شہادت جن میں 72وکلاء تھے ان کی جگہ تعلیمی لحاظ سے کیسے پر ہوگی یہ ایک المیہ ہے کہ اس سانحے کے بعد لوگ معمول کی زندگی گزارتورہے ہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے علاوہ عام لوگ بھی زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ ہرکوئی دل پر ایک بوجھ لئے پھر ریا ہے۔ صوبائی وزیرداخلہ اس سانحے کے اثرات پر یہ ایک جملہ کہتے ہیں کہ ” ہمیں 50 برس پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بہرحال وقت بڑا مرہم ہے، صوبائی وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیراعلیٰ سندھ نے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دونوں صوبوں کے درمیان امن وامان کے قیام کے لئے روابط پر اتفاق کیااور سرحدی نگرانی کے لئے مشترکہ چیکنگ سسٹم اپنا نے پر اتفاق کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Balochistan Ko Taleemi Bohran Ka Samna is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 September 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.