بجلی کے ایک اور بڑے بریک ڈاوٴن کی دستک

وزیرمملکت کے مطابق نصیرآباد میں دہشت گردی کی یہ تیسری کارروائی تھی، اس سے پہلے دہشت گردوں کو بجلی کی فراہمی کا یہ نظام سبوتاژ کرنے میں دو مرتبہ ناکامی ہو چکی تھی۔ تخریب کاری کے اس واقعہ پرمتاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی سے متعلق عابد شیرعلی کو بیان جاری کئے

منگل 3 فروری 2015

Bijli K Aik Or Break Down Ki Dastak
احمد جمال نظامی:
وزیرمملکت بجلی و پانی عابد شیرعلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ قوم سے معذرت خواہ ہیں کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں گڈو سے سبی جانے والی مرکزی ٹرانسمشن لائن کی تباہی کے نتیجے میں ملک ہفتہ کے روز تاریکی میں ڈوبا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ٹرانسمشن لائن کی تباہی سے جیسے ہی ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام اوور لوڈ ہوا اس کے ساتھ ہی ملک کے بڑے حصے میں مکمل بلیک آوٴٹ ہو گیا۔

وزیرمملکت کے مطابق نصیرآباد میں دہشت گردی کی یہ تیسری کارروائی تھی، اس سے پہلے دہشت گردوں کو بجلی کی فراہمی کا یہ نظام سبوتاژ کرنے میں دو مرتبہ ناکامی ہو چکی تھی۔ تخریب کاری کے اس واقعہ پرمتاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی سے متعلق عابد شیرعلی کو بیان جاری کئے کئی روز گزر چکے ہیں مگر معلوم نہیں کہ فیسکو کے زیراہتمام ایریا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں اچانک بہت زیادہ اضافہ کیوں ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

کیا معلوم اس بجلی بریک ڈاوٴن سے متاثرہ علاقوں میں فیصل آباد شامل تھا یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فیصل آباد میں بجلی کی فراہمی مسلسل مسئلہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ ملک میں بجلی کا نظام معمول پر آئے یا قوم مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبی رہے ان کی بلا سے مگر وزیراعظم میاں نوازشریف نے یہ کہہ کر کہ بجلی بریک ڈاوٴن کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔

اپنی حکومتی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جو ملک کی پارلیمانی سیاست میں آصف علی زرداری کی مصالحت کی سیاست اور مفاہمت کے سیاسی رویے کی علامت ہیں، انہیں بھی کہنا پڑا ہے کہ بجلی کا بریک ڈاوٴن حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث جمہوریت اور ریاست دونوں کمزور ہو رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے دعویٰ کیا کہ پٹرول بحران سے ملک کو 10ارب روپے یومیہ کا نقصان ہو چکا ہے اور اب بجلی کے کے مسلسل بحران سے معیشت تباہ ہو رہی ہے۔

سید خورشید شاہ نے بجلی بریک ڈاوٴن میں دہشت گردی کی دلیل کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بجلی کا بریک ڈاوٴن ملک میں فرنس آئل کی قلت کے باعث رونما ہوا ہے۔ کہیں فرنس آئل نہیں اور کہیں گیس نہیں اور چونکہ دریاوٴں میں پانی کی کمی ہو گئی ہے اور نہریں بند ہیں جس کی وجہ سے ہائیڈرو پاور پلانٹس بھی بند ہو رہے ہیں اور ان کی بندش کی وجہ سے 1800میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں کم پڑتی جا رہی ہے۔

جس کی وجہ سے شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14 گھنٹے اور دیہات میں 20گھنٹے ہو گیا ہے۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو گئے ہیں اور صنعتی سرگرمیاں بتدریج ٹھپ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے پانی و بجلی کی ایک سب کمیٹی کے ایک اجلاس میں رکن قومی اسمبلی رانا افضال حسین جس میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے ارکان کرنل(ر) چوہدری غلام رسول ساہی اور حاجی محمد اکرم انصاری بھی شامل تھے اور فیسکو کے تمام چیف انجینئرز کو بھی بلایا گیا تھا، اس اجلاس میں نشان دہی کی گئی ہے کہ فیسکو ایریا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ فیسکو نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے لون سے 20پاور ٹرانسفارمرز کی خریداری کرنی تھی جو گذشتہ دو سالوں سے معرض التوا میں پڑی ہوئی ہے۔

ان پاور ٹرانسفارمرز کو فیسکو ریجن کے مختلف گرڈ سٹیشنز پر لگایا جانا ہے۔ یوں گرڈ سٹیشنوں کی اپ گریڈیشن نہ ہونے سے وہ اوورلوڈنگ کا شکار ہو رہے ہیں اور اس طرح فیسکو کے زیرانتظام علاقوں میں بجلی کی فراہمی کی بد تر صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ ایک طرف تو ملک میں شدید سردی کے اس موسم میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ گھروں اور صنعتی علاقوں میں ایک معمول بنی ہوئی ہے۔

دوسری جانب ملک کے 945وی آئی پی فیڈر ایسے ہیں جن کو دوٹوک انداز میں ہدایت کر دی گئی ہے کہ ان فیڈرز ایریاز میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ممنوع سمجھا جائے۔ پن بجلی، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے میں مالامال ملک پاکستان کے نااہل سیاست دانوں اور کرپٹ بیوروکریسی کی وجہ سے توانائی کے شدید ترین بحران سے نکلنا یقینا کار ندارد ہو گا۔ فرنس آئل کی قلت کے باعث حبکو اور گڈو پاور پلانٹس سمیت کئی دوسرے پاور پلانٹس بند ہیں اور وزارت بجلی و پانی ان پاور پلانٹس کی بندش کو خفیہ رکھ کر عوام کو بار بار یہ اطمینان دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ بجلی بحران بہت جلد ختم کر دیا جائے گا جبکہ امرواقعی تو یہ ہے کہ بجلی کے بحران میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

بجلی کے بحران میں اضافہ کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے عملی طور پر ملک میں گیس کا بھی بحران ہے اور اب فرنس آئل کی قلت کے باعث سسٹم میں ضرورت کے مطابق بجلی فراہم نہیں ہو رہی ہے۔ گھریلو صارفین کے لئے بارہ سے چودہ گھنٹے اور دیہاتی علاقوں میں 18 سے 20 گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق مظفرگڑھ تھرمل پاور پلانٹ سٹیشن کو فرنس آئل کی سپلائی بند ہونے سے اس کے چار یونٹس بند کر دیئے گئے ہیں۔

جس کی وجہ سے نیشنل گرڈ کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے۔ ملک میں تیل کی کمی کی وجہ سے پی ایس او نے مظفرگڑھ تھرمل پاور سٹیشن کو فرنس آئل کی سپلائی بند کر کے ڈیڈسٹاک کے فرنس آئل سے دو یونٹس چلا کر ان سے 310میگاواٹ وجلی کے حصول تک محدود کر دیا ہے اور اگر دو دنوں میں تھرمل پاور سٹیشن کو فرنس آئل کی فراہمی شروع نہ ہوئی تو اس پاور سٹیشن سے بجلی تو یقینا پیدا نہیں ہو گی البتہ بجلی کا بحران ضرور پیدا ہو جائے گا۔

ایک اطلاع کے مطابق سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کے تحصیل ہیڈکوارٹر تاندلیانوالہ شہر اور اس کے گردونواح میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 21گھنٹے تک طویل ہو گیا ہے اور روزانہ کی اس طویل لوڈشیڈنگ سے بجلی سے چلنے والے روزگار بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے صرف تاندلیانوالہ میں ہزاروں مزدور اور محنت کش روزی روٹی کمانے سے محروم ہو گئے ہیں۔ تحصیل ہیڈکوارٹر جڑانوالہ اور تحصیل ہیڈکوارٹر سمندری اور ان دونوں تحصیلوں کے دیہات میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 17 گھنٹے روزانہ تک طویل ہو گیا ہے اور لوگ حکمرانوں کو اس بحران کے باعث صلواتیں سنا رہے ہیں۔

شہری لوڈشیڈنگ کے ان طویل دورانیہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہیں اور ان میں سے اکثر کو نفسیاتی امراض لاحق ہونے لگے ہیں اور ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ ایک طرف تو لوڈشیڈنگ کے باعث کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں اور دوسری طرف گھروں میں پانی کی عدم دستیابی ایک مستقل مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔ اگر ٹینکیوں میں سرکاری پانی آتا ہے تو گھروں میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی کی موٹریں اس پانی کو پانی کے پائپوں میں سے کھینچ کر گھروں کی ٹینکیوں تک پہنچانے اور گھروں کے رہنے والوں کے لئے ذخیرہ کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف جن گھروں میں زمینی پانی کو موٹر پمپوں کے ذریعے کھیچ کر کے پانی کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔

بجلی کی بار بار کی لوڈشیڈنگ کے باعث لوگوں کے لئے زیرزمین پانی کو حاصل کرنا بھی بہت زیادہ مسئلہ بن گیا ہے۔ امر واقعی یہ ہے کہ ملک میں گذشتہ چھ ماہ میں 60ارب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں 68پیسے فی یونٹ اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ رزق کا وعدہ تو خالق نے مخلوق کے ساتھ کر رکھا ہے لیکن پاکستان کی عوام کے پاس بجلی ہے نہ پانی۔

اور تو اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسجدوں کے وضو خانوں میں نماز پڑھنے کے لئے آنے والوں کے لئے وضو کرنے کے پانی کا بھی اہتمام نہیں ہو پاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے جھوٹے وعدوں کا آغاز پیپلزپارٹی کی حکومت کے آغاز میں اس کے بجلی و پانی کے وفاقی وزیر راجہ پرویزاشرف نے 31دسمبر تک لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی نوید سنا کر کیا تھا۔ اب اس جھوٹے دعوے کو گزرے 7سال ہو چکے ہیں لیکن ملک میں سردیوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔

اس کے باوجود بجلی و پانی کے وزیرمملکت عابد شیرعلی ہر ہفتے فیصل آباد میں اپنے کسی نہ کسی خطاب کے دوران یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ بس تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہ اب بھی یہی کہے جا رہے ہیں جبکہ بجلی کا ایک بڑا بریک ڈاوٴن نہایت خاموشی سے عوام کی طرف امڈتا چلا آ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bijli K Aik Or Break Down Ki Dastak is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.