ڈی چوک کا دھرنا

سال 2014ء گیارہ مئی سے ہی تحریک انصاف کے جلسوں، آزادی مارچ، دھرنے، ملک کے تین بڑے شہروں اور ملک کو ہی بند کرنے میں گزرگیا عمران خان نے اپنے احتجاج کیلئے پلان اے، پلان بی، پلان سی اور پلان ڈی تیار کئے

بدھ 31 دسمبر 2014

D Chowk Ka Dharna
عزیز علوی:
سال 2014ء گیارہ مئی سے ہی تحریک انصاف کے جلسوں، آزادی مارچ، دھرنے، ملک کے تین بڑے شہروں اور ملک کو ہی بند کرنے میں گزرگیا عمران خان نے اپنے احتجاج کیلئے پلان اے، پلان بی، پلان سی اور پلان ڈی تیار کئے جنہیں انہوں نے ایک ایک کر کے کھونے کا اعلان کیا اسلام آباد میں دھرنا پلان سے، ملک میں احتجاجی جلسے پلان بی اور شہر بند کرنے کا احتجاج پلان سی قرار دیا گیا جبکہ 2014ء کا ملک بھر کو بند کرنے کا احتجاج پلان ڈی میں رکھا گیا ابتداء میں تحریک انصاف کے احتجاج کا محور پہلے وزیراعظم کا استعفیٰ رہا جس کیلے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے لیکن اسی دوران پی ٹی آئی اور ن لیگ کی حکومت کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے لیکن مذاکرات کیلئے عمران خان کی پہلی شرط وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔

(جاری ہے)

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج پر نکلے سات ماہ سے زیادہ عرصہ گذر گیا جبکہ ان کے دھرنا بھی ڈی چوک میں جاری ہے جہاں عمران خان کا کنٹینرز قومی سیاست میں نمایاں نظر آرہا ہے۔ 11مئی 2014ء کو ملک میں عام انتخابات کی پہلی سالگرہ پر چئیرمین پی ٹی آئی نے پہلا جلسہ بھی ڈی چوک اسلام آباد میں کیا جس کے بعد وہ احتجاجی جلسے کرنے پہلے فیصل آباد اور پھر سیالکوٹ گئے جس کے بعد ان کے جلسے کا اگلا پڑاؤ بہاولپور تھا جہاں سے انہوں نے عدلیہ، حکومت دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چار حلقے کھولنے کے حواے سے ووٹوں کی تصدیق نہ کی گئی تو وہ ملین مارچ لے کر 14اگست 2014ء کو اسلام آباد ڈی چوک پہنچیں گے تاہم جب ان کے مطالبات حکومت نے نہ مانے تو وہ وزیراعظم نوازشریف کے مستعفیٰ ہونے کا نعرہ لے کر لاہور سے ملین مارچ لانے کا باضابطہ اعلان کر بیٹھے۔

اس دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن نے عمران کان کے سیاسی احتجاج میں پاکستان عوامی تحریک کی دھواں دار تحریک بھی شامل کردی اور دونوں جماعتوں کے آزادی اور ملین مارچ لے کر اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہوئے عام خیال یہی تھا کہ اسلام آباد پہنچنے سے قبل حکومت اور احتجاج کرنے والوں میں کوئی ڈیل کرادی جائے گی لیکن حکومت نے دونوں جماعتوں کو کھلم کھلا اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی اور عمران خان ملین مارچ لے کر اسلام آباد شاہراہ کشمیر پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

اس دوران وفاقی دارالحکومت کے ریڈزون کو کنٹینروں اور خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا لیکن آزادی مارچ لانے والے عمران خان اپنا دھرنا ہر صورت ڈی چوک لے جانے کیلئے بے چین رہے اسی دوران عمران خان نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا ۔ پی ٹی آئی کے قائدین وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک، جہانگیر ترین، شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر عارف علوی سیف اللہ خان نیازی، اسد عمر، ڈاکٹر شہزاد وسیم، غلام سرور خان، علی امین گنڈا پور دھرنے کو ڈی چوک منتقل کرنے کیلئے سرگرم رہے جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد پی ٹی آئی کے اس دھرنے اور ڈی چوک جانے کو قومی سیاست کیلئے ڈی ڈے سے تعبیر کرتے رہے اور ڈاکٹر طاہرالقادری اور رعمران خان اپنے تندوتیز بیانات سے نوازشریف حکومت آج گئی کل گئی کی دھمکیوں سے ڈرانے میں لگے رہے۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے کشمیر ہائی وے اور خیابان سہرودی سے اپنے دھرنے ڈی چوک منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے دونوں کے سٹیج ان کے کنٹینروں پر رہے جو اپنی سب کو سنارتے رہے لیکن خود کسی اور کی سرے سے ہی نہ سنی۔ عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کیلئے ٹیم بنائی جس نے اسحٰق ڈار کی سربراہی میں بنی حکومتی ٹیم سے مذاکرات کئے جیسے ہی مذاکرات کی ٹیبل سجتی عمران خان کنٹینر پر آکر حکومت کو للکارا مارتے اور کہتے جن سے مذاکرات کئے جارہے ہیں ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں حتمی فیصلہ میں نے کرنا ہے اس لئے سب سے پہلے نواز شریف کا استعفیٰ میری ترجیح ہے حکومت سے پی ٹی آئی کے مذاکرات بھی بنتے اور ٹوتٹے رہے جو بالآخر ختمی طور پر بھی ٹوٹ گئے پھر عمران خان نے ایک نیا چارٹر آف ڈیمانڈز حکومت کے بھیجا جسے حکومت نے نامنظور کردیا۔

چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اس دھرنے کے دوران سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے احتجاج سے متعلق اس وقت کے حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کیلئے اپنائے گئے طریقہ کار پر اس وقت کی حکومتی ٹیم کے سینئیر رکن عبدالحفیظ پیرزادہ سے بھی مشاورت کی لیکن اس کے بعد بھی ن لیگ کی حکومت اور پی ٹی آئی کی ٹیم مذاکرات کی میز پر نہ آسکے۔

عمران خان نے اپنا دھرنا پرائم منسٹرز ہاؤس کے سامنے لے جانے کی کوشش کی تو پولیس نے آنسو گیس اور ربڑی کی گولیوں سے ان کی پیشقدمی روک دی۔ جس کے بعد عمران خان ڈی چوک سے شاہراہ دستور کے سامنے کنٹینر پر کھڑے احتجاج کرتے رہے لیکن بعد میں وہ دھرنا واپس ڈی چوک لے آئے عمران خان نے اس کے بعد اپنا احتجاج جلسوں کی صورت میں مختلف شہروں میں منتقل کردیا جس کے بعد وہ کراچی ، لاہور، فیصل آباد، ملتان، گجرات، سرگودھا، میانوالی اور رحیم یار خان میں جلسے کرچکے ہیں۔

رحیم یار خان کے جلسے میں عمران خان نے پھر حکومت کو اپنے چار حلقے کھولنے کی نئی تجویز دے ڈالی جس میں انہوں نے عدلیہ کی نگرانی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے اور اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جے آئی ٹی شامل کرنے کا مطالبہ کردیا اور عمران خان نے اپنی جانب سے یہ لچک دکھائی کہ ان تحقیقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف بھی مستعفی نہ ہوں اور میرا دھرنا بھی چلتا رہے لیکن تحقیقاتی کمیشن جو بھی فیصلہ کردے گا میں اسے قبول کرلوں گا جس کے بعد عمران خان نے 30نومبر کو اسلام آباد میں بڑا اجتماع کرنے کا اعلان کر کے حکومت و پھر ڈرانا شروع کردیا وہ 30نومبر کے جلسے کو اپنے احتجاج کیلئے فیصلہ کن مرحلہ بھی قرار دیتے رہے لیکن اس روز عمران خان نے ڈی چوک میں ملک کے تین بڑے شہر فیصل آباد، کراچی اور لاہور بند کرنے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہہ گئے کہ یہ ان کا پلان سی ہے ۔

یہ بھی کارگرنہ ہوا تو پھر وہ پلان ڈی لائیں گے اور میں نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دوں گا۔ عمران خان یہ بھی کہہ گئے کہ ہمارے سارے احتجاج ہی حکومت پر پیرشر ڈالنے کیلئے ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے احتجاج پر چئیرمین عمران خان سے امریکہ، چین اور یورپی یونین کے سفیروں نے براہ راست ملاقات بھی کی ان ملاقاتوں کیلئے پی ٹی آئی کے رہنماء سابق سینٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم پیش پیش رہے ۔

عمران خان نے جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی کے ہمراہ سفیروں سے ملاقات کر کے انہیں اپنے احتجاجی جلسوں اور دھرنے کے بارے میں موقف بتایا۔ عمران خان ایک ہی نکتے پر احتجاج اور دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ ہر حال میں انتخابی دھاندلی کی تفتیش کرا کے رہیں گے۔ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان 11مئی 2013ء کو عام انتخابات میں اپنی عوامی مقبولیت کے اندازے کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کا خواب بھی دیکھ رہے تھے لیکن اگر وہ انتخابات میں مطلوبہ اکثریت نہ ملنے پر اکتفا کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر بننے کا بھی خواب دیکھ چکے تھے جس کی بدولت وہ براہ راست نواز شریف حکومت کے سیاسی حریف بنتے اور وہ پارلیمنٹ میں بڑی محنت سے حکومت کو اپنے چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں رکھتے۔

اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بھی چئیر مین مقرر ہوتے اور اپنی اس پوزیشن سے عمران خان حکومت کی تمام وزارتوں اور کارپوریشنوں کے کھاتے کھول کر بیٹھ جاتے۔ اس طرح بھی وہ نواز شریف حکومت کی راہ میں حال ہوسکتے تھے لیکن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا رتبہ بھی پیپلز پارٹی کے رہنماء سید خورشید شاہ کو مل جانے کے بعد چیئرمین عمران خان نے قائد ایوان اور قائد حذب اختلاف دونوں کو ہی اپنی تنقید کا مسلسل نشانہ بنا رکھا ہے پلاس سی کے بعد وزیر خذانہ اسحٰق ڈار نے عندیہ دے ڈالا کہ حکومت مذاکرات کیلئے تیار ہے جس کے بعد چئیر مین عمران خان نے شرط رکھ دی کہ حکومت کے ساتھ ہمارے پہلے مذاکرات میں جو امور طے ہوگئے تھے ان کو برقرار رکھا جائے اور وہیں سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔

جس کیلئے پی ٹی آئی نے اپنے ٹرم آف ریفرنس کو ماننے کیلئے حکومت پر اپنا دباؤ بھی بڑہائے رکھا ۔ ابتداء میں پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی ٹرم کیلئے ایک مفاہمت کی یاد داشت کا مسودہ بھیجا کہ حکومت فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن قائم کردے جس کے تفتیش کیلئے بیٹھنے کے ساتھ ہی ہمارا ملک بند کرنے کا احتجاج ختم کردیا جائے گالیکن ہمارا دھرنا ختم نہیں ہوگا ان مذاکرات میں ن لیگ کی حکومت کی ٹیم نے نواز شریف کے بارے میں عمران خان کے خطاب میں کب و لہجہ نرم کرنے کا مطالبہ اولین شرط کے پر رکھا جسے یہ کہہ کر سنا ان سنا کردیا گیا کہ حکومت بھی تو عمران خان کے خلاف اشتہار چلا رہی ہے ان باتوں کو چھوڑ کر مذاکرات کیلئے آگے بڑھا جائے۔

پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اگر حکومت اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہوجائے تو مسئلہ صرف 48گھنٹے میں حل ہوسکتا ہے جبکہ پی ٹی آئی تو وزیراعظم کے استعفے کا اپنا مطالبہ پہلے ہی بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے حکومت طاقت سے ہمیں دبا نہیں سکتی لیکن آج ہمیں ہر بات سے بالا تو ہو کر یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان اس تناؤ کا آخر نتیجہ کیا ہوگا۔ 2014ء کا سورج تو تیزی سے غروب ہو کر ہماری ملکی سیاسی تاریخ میں کئی جواب طلب سوالات چھوڑ جائے گا لیکن کیا 2015ء کا سورج بھی اپنے طلوع کے بعد کیا ہماری یہی رسہ کشی دیکھے گا یا قومی آہنگی، امن و سلامتی اور ترقی کیلئے نئی کرنیں بکھیرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

D Chowk Ka Dharna is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 December 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.