ہر 20 میل کے فاصلے پر ایک ڈیم بنانے کا بھارتی منصوبہ

پاکستان کوا یتھوپیا بنانے کیلئے بھارت کی آبی جارحیت ڈیموں کی تعمیر سے پہلو تہی کے باعث پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان

بدھ 30 مارچ 2016

Har 20 Meel K Fasalay Par Aik Dam Bananay Ka
محبوب احمد:
ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے جہاں توانائی، بحران ملکی معیشت کو تباہی سے دوچار کررہاہے وہیں پانی کی عدم دستیابی کے باعث بلوچستان، سندھ خیبرپی کے اور جنوبی پنجاب کی زمینیں بنجر اور ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی پرمجبور ہیں۔ دریاؤں کی دھرتی صحراؤں میں بدل رہی ہے۔

1950ء میں پانی کی فی کس مقدار 5830کیوبک میٹر تھی اب صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہے اور اندا زہ یہی لگایاجارہا کہ 2025ء تک یہ صرف 550کیوبک میٹررہ جائے گی۔ پانی کی کمی کا بحران 1948ء سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے ایک اندازے کے مطابق کی کمی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ 22.3ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 21.2ملین ہیکٹر رہ گیا ہے۔ عالمی سطح پر پانی کا اوسطاََ ذخیرہ 40فیصد، بھارت میں 54فیصد ہے اور پاکستان میں صرف 9فیصد ہے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں مجموعی طور پر 80فیصد کمی واقعی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

دریائے چناب سے بگیہار ڈیم کی تعمیر سے پہلے 90لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا تھا جو کہ اب صرف 23لاکھ سیراب ہورہا ہے۔ دریائے چناب میں سے بھارت سات سے آٹھ ہزار کیوسک پانی چوری کررہا ہے صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کی تمام نہریں تقریباََ بند ہو کررہ گئی ہیں اور ان میں ریت اڑرہی ہے۔ 1996ء میں نہروں میں پانی کی قلت 2فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 1997ء میں یہ کمی 9فیصد ہوگئی۔

2000ء تک یہ کمی 43فیصد تک پہنچ گئی۔ بارشیں کم ہونے سے یہ قلت 61فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ قومی سطح پر اس وقت جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں ان سب سے بڑا ایشوبھارت کی آبی جارحیت کا ہے۔ بھارت توانائی بحرن کی کمی کوپورا کرنے کے لئے 2030ء تک 292ڈیم تعمیر کرنے کی تیاری کررہا ہے جس سے پاکستان کے بنجر ہونے کا خدشہ ہے ، ان ڈیموں کی تعمیر سے ہمالیہ کی وادی بھی متاثر ہو گی اور یہ ڈیم گھنے جنگلات کو نقصان پہنچائیں گے۔

بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، بغیر وارننگ پانی چھوڑنے سے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہورہی ہے۔ بھارت ہمالیہ میں ہر 20میل کے فاصلے پر ایک ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے، جس سے 2050ء تک براہما پترا میں 20فیصد اور دریائے سندھ میں 8فیصد پانی کی کمی ہوجائے گی۔ بھارت کے پاس 1947ء میں صرف 300ڈیمز تھے جن کی اس وقت تعداد 4ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ان ڈیمز کو 20لاکھ 8ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37ہزار 367 میگاواٹ بجلی پیدا کرنیوالے 36پاور سٹیشن کیلئے بھی استعمال کیاجاتا ہے۔

دنیا میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10لاکھ ہے جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8300ہزار کیوبک کلو میٹر ہے جبکہ عالمی سطح پر دنیا کے کل ڈیموں کا 59.7فیصد ایشیا میں، 21.1فیصد شمالی امریکہ 12.6فیصد یورپ ، 3.3فیصد افریقہ، 2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3فیصد آسٹریلیا میں ہیں۔ دنیا بھر میں 50ہزار ایسے بڑے ڈیم ہیں جن کی اونچائی 200فٹ سے زائد ہے۔ بڑے ڈیم رکھنے کے حوالے سے 19ہزار ڈیمز کے ساتھ چین پہلے نمبر پر 8100ڈیمز کے ساتھ امریکہ دوسرے اور بھارت چار ہزار ڈیمز کے ساتھ تیسرے نمبر پرہے۔

پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات درست نہ ہونے کی وجہ سے اوسطاََ سالانہ 20ملین ایکڑفٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے اور پانی کی کمی سے پاکستان میں ہر سال سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل زمین پر کاشت نہیں کی جاسکتی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے لاکھوں ایکڑرقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں یہی صورت حال برقرار ہی تو خدا نخواستہ خدشہ ہے کہ کہیں یہاں ایتھوپیا اور سومالیہ جیسے ہی حالات پیدا نہ ہو جائیں۔

بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی حکمت عملی کی تیاری اور عملدرآمد دنوں نہیں برسوں کی منصوبہ بندی کاپیش خیمہ ہے۔بھارت کئی ڈیموں کی بنیاد سے لے کر تکمیل تک کے مراحل طے کر گیا ہے۔ سندھ طاس کے معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کے حصے کے پانی کور وکنے کا مازنہیں لیکن پچھلے کئی برس سے اس نے پاکستانی دریاؤں پر بھی ڈیم بنانے کا سلسلے شروع کررکھا ہے۔

بھارت کی طرف سے پاکستان آنیو الے دریاؤں پر ڈیم بنانے اور ان دریاؤں میں پانی کابہاؤ کنٹرول کرنے کے اقدامات پر ایکشن کیوں نہیں لیا جارہا؟ ہماری قیادت نے خاموشی کیوں اختیار کررکھی ہے۔پاکستانی حکمرانوں کو بار بار خبردار کرنے کے باوجود اس اہم ایشو پر عالمی عدالت سے اس طرح رجوع نہیں کیا گیا جس طرح ہماری قیادت کو کرناچاہئے تھا نجانے کون سی مصلحتیں آڑے آرہی ہیں؟ دنیا بھر میں جہاں ماہرین پانی ہی کے مسئلے پر آئندہ عالمی جنگ ہونے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں، وہیں جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جارہاہے۔

ملکی زراعت، توانائی کے شعبے میں بحران اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے وسائل کے شکار پاکستان میں صرف 18ڈیم ہیں، پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا جو دنیا بھر کے 10لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے، وہیں پاکستانی معیشت کی بنیاد ” زراعت“ تباہی کی طرف گامزن ہے اور زرعی لحاظ سے دنیا کا زرخیز ترین تصورکیا جانے والا خطہ پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جارہاہے۔

پاکستان میں آئندہ 10برس کے دوران پانی کے ذخائر کے نئے مسائل پیدا نہ کئے گئے تو 2025ء تک پاکستان عالمی فہرست میں ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوجائے گا جہاں پانی کا شدید بحران پیش ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ڈیموں کی تعمیر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور موجودہ حالات میں توا ن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن ان ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جارہی ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

پاکستان اس وقت سنگین بحرانوں سے دوچار ہے جن میں بدامنی،، توانائی بحران اور دیگر درپیش چیلنجز کے بعد سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے جو شروع دن ہی سے پاکستان کو لاحق ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں پانی اور بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے لیکن تاحال اس بحران پر کنٹرول کرنے کیلئے حکومتی سطح پر محض زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جارہے۔

کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ کام 1953ء میں شروع ہوا تھا اس ڈیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ڈیم میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل، دریائے کنٹر، دریائے سوات، دریائے دیرا دریائے سواں کاپانی بھی جمع ہوسکتا ہے کیونکہ کالاباغ کا علاقہ ہی وہ مناسب جگہ ہے جہاں ان دریاؤن کا اتصال ہوتا ہے، ا س ڈیم کی بالائی سطح کی اونچائی سطح سمندر سے 925فٹ رکھی گئی تھی۔

1991ء میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوئے تھے اور کالا باغ ڈیم کے لئے گرین سگنل دے دیا گیاتھا۔ پانی کے اس معاہدے کو مشترکہ مفادات کونسل نے بھی 21 مارچ 1991ء کو منظور کیا تھا، اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر جتنے بھی ممکنہ ڈیم اور واٹر سٹوریج بنائے جاسکتے ہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے لیکن حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی بنا ء پر اس منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے ہوئے ہیں۔

بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہاہے، جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دونہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کاپنی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جارہا ہے، جہلم پر 12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔

معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کا پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کا بھارت کوکوئی حق نہیں ہے، یہ سرکاری خاموشی“ بھارت کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے جو ہمارے ملک کو دھیرے دھیرے صحرا بنانے کے منصوبے پرکام کررہاہے ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کا کیس مضبوط ہے اور اسے درست طور پر ٹھوس ثبوت وشواہد کے ساتھ پیش کیاجائے تو کامیابی کے امکانات بہت روشن ہیں۔

پاکستانی قیادت کو اب اس مجرمانہ کو تاہی کا قطعی متحمل نہیں ہونا چاہئے اگر ایسا نہ کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ چند برس بعد ہم پانی کی ایک ایک بوندے کے لئے بھارت کے محتاج ہوجائیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا نجام کیاہوگا لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارے پاکستان کو ایتھوپیابنانے کے لئے آبی جنگ کا آغاز کردیا ہے جس کاا نجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Har 20 Meel K Fasalay Par Aik Dam Bananay Ka is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.