خلاف معمول حالات‘ غیر معمولی قوت برداشت کا تقاضا

سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ آئین اور قانون کے تحت گورنر راج وزیراعظم کے احکامات پر لگایا جا سکتا ہے جس کی 6 ماہ میں پارلیمان سے توثیق ضروری ہے

جمعہ 20 مارچ 2015

Khilaf e Mamool Halat
شہزاد چغتائی:
سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ آئین اور قانون کے تحت گورنر راج وزیراعظم کے احکامات پر لگایا جا سکتا ہے جس کی 6 ماہ میں پارلیمان سے توثیق ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم گورنر راج کے نفاذ کی اجازت دیدیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا پارلیمان اس کی منظوری دیدے گی۔ ان خدشات کا پس منظر وزیر اعظم کے 16 فروری کے دورہ سندھ سے جڑا ہوا ہے جب اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں وزیراعظم محمد نوازشریف نے حکومت سندھ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اصلاح احوال کے لئے مہلت دی تھی۔

اور آرمی چیف نے بھی حکومت سندھ پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔گو اسے اس وقت بھی گورنر راج کی جانب اشارہ قرار دیا گیا تھا مگر سندھ میں تبدیلی کی یہ سرگوشیاں وقت کے ساتھ مدھم پڑ گئی تھیں جنہوں نے نائن زیرو پر آپریشن کے بعد اب ایک بار پھر تقویت پکڑ لی ہے۔

(جاری ہے)


دلچسپ بات یہ ہے کہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد سیاسی قوتیں بھی اپنے درمیان اختلافی امور کو افہام و تفہیم کے ذریعے طے کرنے پر متفق ہو گئی تھیں۔

لیکن گورنر راج کے غیر ضروری ہونے کے بارے میں جس روز سیاسی قوتوں کی مشترکہ سوچ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں‘ نائن زیرو پر چھاپہ پڑ گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف 16 فروری کو اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم محمد نوازشریف‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد‘ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ‘ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختراورکور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کی موجودگی میں اہم فیصلے کئے جا رہے تھے تو دوسری جانب ان دنوں سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب تھا اور یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ذوالفقار مرزا گورنر راج میں گورنر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔

بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فروری میں جب سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی خبریں آئی تھیں تو وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا۔ تحریک انصاف ملک کی واحد جماعت ہے جو کہ ملک میں گورنر راج اور ایم کیو ایم کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔ گورنر راج کے حامی کہتے ہیں کہ یہ ماورائے آئین اقدام نہیں ہے۔

لیکن مخالفین نہیں مانتے، ان کو خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مارشل لاء بھی آ سکتا ہے۔ اس صورت حال میں جب وفاق اور دیگر صوبوں کی حکومتیں دباؤ میں آ سکتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے مابین افہام و تفہیم کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو سکتا ہے ، اس مسئلے پر پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی پشت پر کھڑی ہے اور رینجرز سے خوفزدہ نہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گورنر راج کے بادل چھٹ گئے ہیں لیکن سیاسی حلقوں میں تشویش بدستور برقرار ہے۔

درحقیقت افواہوں نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ایک کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کہتے ہیں کہ گورنر راج یا مارشل لاء لگانا آسان نہیں۔ فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگارو بھی اس کے مخالف ہیں۔ دوسری طرف گورنر راج کے نفاذ کی حامی معدودِ چندسیاسی جماعتوں کی بھی کمی نہیں ہے جن میں نو عمر تحریک انصاف بھی شامل ہے جس کے واحدہ لا شریک رکن سندھ اسمبلی ثمر علی خان کہتے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج ناگزیر ہو گیا ہے۔

اس دوران ایم کیو ایم پر پابندی کے مطالبات بھی سامنے آئے۔ سندھ نیشنل پارٹی کے چیئرمین نے ایم کیو ایم کے تمام اثاثوں اور اکاؤنٹس کی چھان بین‘ کرفیو لگا کر اسلحہ برآمد کرنے‘ بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا اور کہاکہ اْردو بولنے والے ایم کیو ایم کا ساتھ چھوڑ دیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک غیر اعلانیہ افہام وتفہیم موجود ہے جو کہ خلافِ معمول حالات میں غیرمعمولی قوت برداشت کا تقاضا کرتی ہے۔

لیکن اس مشترکہ سوچ نے سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بلا شبہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اس دوران چھوٹے موٹے اختلافات ضرور ہوئے لیکن جمہوریت کی بقاء اور استحکام کے لئے سیاسی قوتیں ایک ہیں۔ اے این پی بھی مفاہمت کی اس سیاست کا حصہ ہے حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی رہائشگاہ پر چھاپے کے بعد یہ یگانگت برقرار ہے اور اس میں کسی ابہام کو پنپنے نہیں دیا گیا۔

سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان افہام و تفہیم کی فضا قائم ہے۔ ایم کیو ایم اب تک حکومت سندھ کا حصہ نہیں بن سکی ہے لیکن پیپلز پارٹی اس کا ساتھ نبھا رہی ہے اور اس نے ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی سے بچا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے نائن زیرو پر چھاپے کی مذمت کی اور چھاپے کے خلاف ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر واک آؤٹ کیا۔

اس دوران وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی کہا ہے کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے نہیں لگانا چاہتے۔ سیاسی حلقوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ سندھ میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو بات دور تک جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سندھ میں تبدیلی کی خبروں سے خوفزدہ نہیں ہیں وہ بہت زیادہ پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد اسلام آباد سے واپس پہنچ کر انہوں نے کراچی کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے۔

منگل کو آصف علی زرداری نے سندھ اسمبلی کے ارکان کو ظہرانہ دیا۔ اس موقع پر انہوں نے پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے لئے گرین سنگل دیدیا اور ہدایات دیں کہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی جائیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات جیت لے گی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے‘ منگل کو پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ مشاورت کے بعد ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کی منظوری دیدی۔

بلاول ہاؤس میں دئیے گئے ظہرانے میں آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے وزراء اور ارکان اسمبلی سے مشورہ مانگا جس پر ارکان اسمبلی نے ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت میں شمولیت کی حمایت کر دی جس پر آصف علی زرداری نے کہاکہ فیصلہ ہو گیا ہے اور ارکان صوبائی اسمبلی کی رائے سامنے آ گئی ہے ہم نے ایم کیو ایم کو کہہ دیا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد ہم دونوں حکومت میں شامل ہوں گے۔

ایم کیو ایم کو حکومت میں لانے کے لئے وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی جو کہ ایم کیو ایم کو شامل کرنے کے لئے مذاکرات کرے گی۔ اس کے برعکس ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حالیہ واقعات کے بعد تقریر میں کہا ہے کہ سندھ حکومت کا وجود ہی نہیں تو حکومت میں شامل کیا ہوں گے ؟ دریں اثناء ایک جانب مفاہمت کی سیاست عروج پر ہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف رینجرز کو قتل کی دھمکیاں دینے کے الزام میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

جس کے ساتھ ایم کیو ایم کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ایم کیو ایم صوبائی حکومت میں شامل ہو سکے گی؟ پیپلز پارٹی کے سربراہ ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کی سیاست سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں وہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پر برا وقت ہے اس وقت ایم کیو ایم کا ساتھ چھوڑنا بد عہدی ہو گی۔ آصف علی زرداری کا یہ اعلان اس بات کا غماز ہے کہ سیاسی قوتوں کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی اور افہام و تفہیم موجود ہے۔ تاہم بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ صوبائی حکومت میں شمولیت سے ایم کیو ایم کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Khilaf e Mamool Halat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 March 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.