این اے 153 کا ضمنی الیکشن

عوام کیلئے کیا چوائس ہے ؟۔۔۔۔ عجب اتفاق ہے کہ نااہل ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ این اے153 کے بعد این اے 155 اور این اے 148 کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے

ہفتہ 13 فروری 2016

NA 153 Ka Zimni Election
خالد جاوید مشہدی :
مسلم لیگ ن کے لیے صدمات اور جھٹکے آتے جا رہے ہیں۔ این اے 154 میں سبکی کا زخم ابھی تازہ تھا کہ این اے 153 میں مسلم لیگی ایم این اے دیوان عاشق بخاری کو تاحیات نااہلی کا پرچہ سپریم کورٹ نے تھما دیا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ نااہل ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ این اے153 کے بعد این اے 155 اور این اے 148 کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے اور آثار یہ بھی ہیں کہ عبدالرحمٰن کا نجو اور این اے 148 پر غفار ڈوگر بھی لائن میں لگنے جا رہے ہیں اس لیے مسلم لیگ ن کو ابھی سے کمر کس لینی چاہیے تاکہ صدمات کی شدت کم محسوس ہو۔

اب جبکہ این اے 153 پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ حلقہ میں انتہائی بے چینی کی فضا ہے۔ اگرچہ ان سطور کے شائع ہونے تک ٹکٹ کا فیصلہ ہو چکا ہو گا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت (ہر قیمت پر ) جیت کیلئے ایک بے اصولی کی مرتکب ہونے جا رہی ہے کہ رانا قاسم نون کو جو 2013 کے الیکشن میں دیوان عاشق بخاری کے حریف تھے اور انتہائی کم ووٹوں سے ہارے تھے، (دیوان عاشق بخاری 94298 ، رانا قاسم نون 88593 ، فرق 5705 ) کو ٹکٹ ملنے کی باتیں بڑے یقین سے کی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

ان دونوں امیدواروں کا تعلق اس کلاس سے ہے جو اپنا ذاتی ووٹ بنک بھی رکھتے ہیں اور نظریاتی ووٹوں کی محتاجی زیادہ نہیں ہوتی مگر اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور حلقہ میں بھاری نواز شات صوبائی حکومت ہی کر سکتی ہے اس لیے رانا قاسم نون حکومتی جماعت کے ٹکٹ کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر دیوان عاشق بخاری کو سزا دینا بھی مقصود ہو کہ انہیں نے جعلی ڈگری کی بنا پر الیکشن لڑ کر پارٹی کی ساکھ خراب کی وہاں رانا قاسم نون بھی کسی نظریہ سے وابستہ شخصیت نہیں ہیں۔

موصوف بھی چڑھتے سورج کے ہی پجاری ہیں۔ انہوں نے 2002 کا پنجاب اسمبلی کا الیکشن مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا اور پرویز الہٰی کے دور میں صوبائی وزیر بھی رہے۔ 2008 کا الیکشن انہوں نے ق لیگ اور 2013 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑا اور دونوں دفعہ دیوان عاشق سے ہار گے۔ شکست کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو گے۔ یہی حال دیوان عاشق کا بھی رہا۔ 2013 کا لیکشن انہوں نے ن لیگ اور 2008 ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا۔

2002 میں بی اے پاس نہ ہونے پر الیکشن نہ لڑا تاہم اپنے بھائی دیوان جعفر بخاری کو ق لیگ سے ٹکٹ پرکامیاب کرایا۔ دونوں اُمیدوار یعنی دیوان عاشق اور رانا قاسم نون مضبوط امیدوار ہیں مگر پاکستانی عوام کے لیے چوائس کیا ہے کہ کم تعلیم یافتہ بغیر کسی اصول یانظریہ کے امید وار جس پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کی امید ہو اس کا دامن پکڑ لیتے ہیں اور پارٹیاں بھی ہرقیمت پر جیت کے نظریہ سے ایسے سیاسی مسافروں کو قبول کر لیتی ہیں۔

جہاں تک مسلم لیگ ن کی علاقائی قیادت ہے تو وہ رانا قاسم نون کو ٹکٹ دینے کی شدید مخالف ہے کہ جس شخص نے پارٹی کے منتخب ایم این اے کو نااہل کروایا اس کو ٹکٹ دینا کہاں کی اصول پسندی ہے ؟عاشق بخاری اب اپنے بیٹے دیوان عباس کو میدان میں لانا چاہتے ہیں۔ صورتحال انتہائی دلچسپ مگر پیچیدہ ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ دیوان عاشق اور قاسم نون ایک دوسرے کے علاقائی حریف ہیں اور اسی طرح ان کے ذیلی دھڑے بھی ہیں۔

وہ کس طرح اپنے حریف گروپ کو سپورٹ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ اگر قاسم نون مسلم لیگ میں چلے گے تو تحریک انصاف کے پاس ملک عباس کھاکھی ہی واحد امیدوار ہیں جو 2013 میں رانا قاسم کے ساتھ تھے اور اب ٹکٹ کے امیدوار ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین جو این اے 154 سے تازہ تازہ کامیاب ہوئے ہیں اپنے بیٹے علی کو میدان میں اُتارنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔


دریں اثناء بلدیاتی انتخابات کے بعد اب عہدیداروں کے انتخاب کا مرحلہ آپہنچا ہے اور گورنر پنجاب رفیق رجوانہ بجائے غیر جانبدار رہنے کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے کُھل کر پارٹی سیاسٹ کر رہے ہیں اور آزاد منتخب چیئرمینوں کو ن لیگ میں شامل کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف رحیم یارخان میں پیپلزپارٹی کو ملنے والی ضلع کونسل کی چیئرمین شپ بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اورمسلم لیگ ن نے اس حلقہ میں بھی کامیابی کے لیے تمام ہوم ورک مکمل کر لیا ہے جس کے بعد پورے پنجاب میں تمام بلدیاتی عہدے مسلم لیگ ن کو ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے مگر اس کے ساتھ دیگر پارٹیوں کی طرف سے حکمران جماعت کی شدید مخالفت بھی جاری ہے۔ کاش ہم میں تحمل، برداشت او رسیاسی اداروں کی صفات پیدا ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

NA 153 Ka Zimni Election is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 February 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.