” آف شور“ کمپنیوں کا شور

اپوزیشن کا نام آتے ہی حکومت “ شیر“ ہوگئی

جمعرات 26 مئی 2016

Offshore Companion Ka Shor
ایس بی ایس:
گزشتہ دنوں بھی قومی سیاست کے منظرنامے پر پانامہ لیکس کے بادل چھائے رہے۔ صورتحال نے دو اہم موڑ لے لئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے ٹی آراوز پرشدید اختلاف رائے نظر آرہا تھا۔ حکومت نے اپوزیشن کے ٹی آراوز کو تسلیم کرنے سے انکار کیاتو اپوزیشن نے بھی حکومتی اوآرز پربننے والے کمیشن کو مستردکردیا۔

اس صورتحال میں دونوں جانب سے ” احکامی بیانات اس طرح داغے گئے جیسے اعلیٰ عدلیہ ان کے احکامات پر کام کرتی ہے۔ اس صورت حال کو چیف جسٹس کے جوابی خط نے سنبھالا جس میں چیف جسٹس نے مطلوبہ معلومات کی فراہمی تک کمیشن بنانے سے انکار کیا ہے۔ دوسری جانب صورتحال میں اس وقت ڈرامائی تبدیل آگئی جب آف شور کمپنیوں کو ٹیکس چوری اور پیسہ چھپانے کی وجہ قرار دینے والے عمران خان کے کھاتے پر بھی آف شور کمپنی نکل آئی۔

(جاری ہے)

اس صورت حال پر دو مختلف بیانات بھی سامنے آگئے۔ عمران خان کاکہناتھا کہ انہوں نے 1983ء میں آف شور کمپنی بنائی تھی تاکہ ٹیکس سے بچاجا سکے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ترجمان کاکہناتھا کہ عمران خان نے باہر کاروبار کیااور قانونی طور پر آف شور کمپنی بنائی۔ اس صورتحال نے تحریک انصاف کے حامیوں کو بھی دفاعی لائن پر لاکھڑا کیا۔ پشاور کے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی عمران خان کے حق میں نہیں گئے۔

اس صورت حال میں پریشان حال حکومت کو کافی سہارا مل گیا ہے یہاں تک کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ یہ کہتے نظر آئے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کویہ پیش کش کی ہے کہ آئیں مل بیٹھ کر مسئلے کاحل نکالیں۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت کو راستہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اب کوئی بھی سیاسی جماعت آف شور کمپنیوں سے پاک“ نہیں رہی۔

عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان سمیت تحریک انصاف کے صف اول کے رہنماؤں کے نام آف شور کمپنیاں نکل آئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں وزیراعظم کے بچوں کے نام فہرست میں شامل ہیں۔پیپلزپارٹی میں بے نظیر بھٹو شہید اور رحمان ملک سمیت اہم راہنماؤں کے نام پانامہ پیپرز میں شامل ہیں۔ جس طرح قسط دار ناموں کی فہرست آرہی ہے اس نے ان ہم شخصیات کو بھی پریشانی میں مبتلا کردیاہے، اب حالات تیزی سے بدلتے نظرآرہے ہیں۔

وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ توپہلے ہی اسمبلی میں آکر وضاحت دینے کے مطالبے میں بدل گیا تھا۔ اب حالات اس سے بھی نیچے جاتے نظر آرہے ہیں۔ بظاہر غیرت سادات بچاتے ہوئے حکومت کا گھیراؤ کیا جاتارہے گالیکن اندرون خانہ معاملات مل بیٹھ کر حل کیے جائیں گے۔ بظاہر تو یہ لگ رہاہے کہ آف شور ہنڈیا بیچ چورا ہے میں ٹوٹنا عوام کے لئے بہتر ہے لیکن حالات جس طر پلٹا کھارہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب ” اشرفیہ“ کاپیٹ پھر ڈھکنے کاعمل شروع ہوچکا ہے۔

ذرائع کے مطابق اب حکومت جارحانہ انداز اختیار کرکے ”مقامات“ کرے گی کیونکہ براہ راست حکومتی اراکین اسمبلی کے نام آف شور کمپنیوں نہیں ہیں لیکن دیگر جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے نام اس فہرست میں آچکے ہیں۔ مفاہمت“ کایہ عمل عوام کے لئے نقصان دہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں کاروبار سیاست اسی طرح چلتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Offshore Companion Ka Shor is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 May 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.