سندھ میں پکڑ دھکڑ سے متحدہ قومی موومنٹ پیپلز پارٹی میں فاصلے

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ میں آصف زرداری سے دوستی نبھاتا رہا، اس دوران کراچی آپریشن کا رْخ ہماری طرف موڑ دیا گیا ہے

جمعہ 14 فروری 2014

Pakar Dhakar Se MQM Peoples Party Main Fasle
شہزاد چغتائی:
کراچی میں ہڑتال اور دْولہا فہد عزیز کی گرفتاری کے واقعہ کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ میں آصف زرداری سے دوستی نبھاتا رہا، اس دوران کراچی آپریشن کا رْخ ہماری طرف موڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے۔

ادھر وزیراعظم اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے درمیان کراچی میں جاری آپریشن پر تبادلہ خیال ہو ہے۔ گورنر سندھ نے بھی کراچی آپریشن میں ناانصافیوں کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ ایم کیو ایم نے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل پر سندھ اسمبلی سے بار بار واک آؤٹ کیا اور گمشدہ کارکنوں کی بازیابی کیلئے نوٹس دیدیا جس کا وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی نوٹس لیا اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہدایات جاری کی ہیں۔

(جاری ہے)

وفاق نے ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی آپریشن کی نگرانی کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے یوم سوگ پر اعلان کے بعد بظاہر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان افہام و تفہیم کی فضاء سبو تاڑ ہو کر رہ گئی ہے۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم نے کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ہڑتال کی جن کو5 ستمبر2013 ء کو آپریشن شروع ہونے کے بعد سے مشکلات کا سامنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد ایم کیو ایم کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کئی بار آپریشن کے غیر منصفانہ ہونے پر احتجاج کرچکی ہے اور حکومت سندھ کے ناروا سلوک اور انتقامی کارروائیوں کی شکایت کرچکی ہے۔ اس بار ایم کیو ایم کا یوم سوگ 2 بجے ختم کر دیا گیا جس کے ساتھ کراچی تجارتی معاشی سرگرمیاں شروع ہوگئی‘ بازار کھل گئے‘ فوڈ اسٹریٹ کی رونق بحال ہوگئی لیکن اورنگی سے شاہ فیصل کالونی جانے والی ایک بارات کے دولہا کی گرفتاری کے بعد نئی صورتحال پیدا ہوگئی اور اس کے نتیجے میں پولیس اور ایم کیو ایم کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی کیونکہ گرفتار ہونے والے دولہا کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔

کراچی پولیس چیف نے پہلے کہا کہ فہد چار پولیس والوں کے قتل میں ملوث ہے۔ پھر انہوں نے یہ بیان واپس لے لیا اور فہد کو رہا کر دیا۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے فہد پر تشدد کا الزام لگایا۔ کراچی کے پولیس چیف نے فہد کو گناہگار قرار دیا اور کہاکہ فہد قصور وار ہے۔ لیکن پولیس نے مس ہینڈلنگ کر کے معاملہ بگاڑ دیا‘ صحت یاب ہونے پر فہد سے تفتیش ضرور کی جائے گی۔

کارکن کی گرفتاری اور تشدد کیخلاف ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے سندھ اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے فہد عزیز کی گرفتاری پر وفاقی اور صوبائی حکومت سے وضاحت طلب کرلی۔ فہد عزیز کی گرفتاری پر سندھ اسمبلی میں گرما گرمی بھی ہوئی۔
ایم کیو ایم7 گزشتہ ماہ سے اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کو فی الوقت کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں۔

جب مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطے ہوئے تھے تو سندھ کے مسلم لیگی رہنماء بپھر گئے تھے۔جب سے سندھ ٹو کا مطالبہ پس منظر میں چلاگیا ہے ایم کیو ایم بھی خاموش تھی لیکن ڈاکٹر قادر مگسی نے سندھ ٹو کے مردے میں جان ڈال دی حالانکہ اس وقت قوم پرستوں اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی کوئی تنازع نہیں ہے۔
ان دنوں ایم کیو ایم کی توپوں کا رْخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے اور پیپلز پارٹی سندھ فیسٹول میں الجھی ہوئی ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔

اپوزیشن نے سندھ فیسٹول پر86 کروڑ کے قومی آمدنی لٹانے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ وفاق سے ملنے والے فنڈز سندھ میں ترقیاتی کاموں کے بجائے جھوٹی شان کے دکھاوے کی نذر ہو رہے ہیں۔ کراؤن پرنس مغل شہزادوں سے بھی زیادہ قومی دولت لٹا رہے ہیں۔
جوں جوں طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں کراچی سے وزیرستان تک دہشت گردی ‘ بم اور خودکش دھماکوں کی نئی لہر نے جنم لیا ہے۔

بلدیہ ٹاؤن میں پیر مہربان شاہ جلالی بابا کے آستانے پر فائرنگ کا واقعہ بہت خوفناک تھا۔ جس میں ڈھائی سالہ بچی سمیت9 افراد جاں بحق اور8 افراد زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں بچی کا والد معین شامل ہے جوکہ زینب کو دم کرانے لے کر گیا تھا۔ آستانہ ریٹائرڈ ڈی ایس پی ٹکا خان کی رہائشگاہ کے احاطہ میں قائم تھا۔ پیر مہربان شاہ سے لوگ فیض حاصل کرتے تھے۔

فائرنگ سے وہ خود بھی زخمی ہوگئے۔ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد فوری طور پر اس واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں لیکن دوسرے ہی روز جنداللہ تنظیم نے ذمہ داری قبو ل کرلی تھی۔ اس دن ایسا لگا کہ دہشت گردی کی ذمہ داریاں قبول کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ جنداللہ کے بعد اب بلوچ ری پبلکن آرمی بھی رحیم یار خان میں گیس پائپ لائنوں کو اڑانے کا الزام تسلیم کر رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی ہے لیکن پیر مہربان شاہ کے آستانے پر تین موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی۔ ملزمان نے نائن ایم ایم کے پستول استعمال کئے۔ جاں بحق ہونے والوں کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جوکہ بہت زیادہ مشتعل تھے۔ لواحقین نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ وہ ملزمان کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

دہشت گردی کے ساتھ ساتھ تخریب کاری کا عفریت تیزی سے ملک کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ رحیم یار خان میں گیس پائپ لائنوں کو بم سے اڑانے اور کراچی میں دہشت گردی کا واقعہ بیک وقت ہوا۔ اس سے قبل کراچی میں ریلوے ٹریک اور پشاور میں بم دھماکہ کے اوقات ایک تھے۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کراچی اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات رات کو ایک ساتھ ہوتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔

کراچی میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم الشہاب کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا ہے جبکہ پیر مہربان شاہ جلالی بابا کے آستانے پر فائرنگ کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جند اللہ کئی عشروں سے سرگرم عمل ہے۔ اسی تنظیم نے سابق کور کمانڈر پر کلفٹن میں بموں سے حملہ کیا تھا جس میں 10 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور کور کمانڈر بال بال بچ گئے تھے۔کراچی میں مزاروں پر فائرنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں کچھ عرصے قبل ہالیجی جھیل پر قائم مزار پر 5 افراد مردہ پائے گئے تھے جن میں ایک ریٹائر میجر اور کیپٹن شامل تھے۔

ابھی یہ معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ گڈاپ گلشن معمار میں مزار پر فائرنگ کر کے 6 افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں میں تین مجاور تھے۔ یہ کہا جاتا بلدیہ ٹاؤن اور گلشن معمار کے علاقوں میں طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔ ایک جانب دہشت گردی ہے تو دوسری جانب تخریب کاری کا عفریت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ریلوے لائنوں پر ہونے والے واقعات اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ بد امنی کے واقعات میں حکومت کو ان محرکات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakar Dhakar Se MQM Peoples Party Main Fasle is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 February 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.