شاہراہ دستور میدان کارزار بن گیا
بالآخر وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے انقلاب و آزادی مارچ جس کا 14 اگست 2014 کو لاہور سے آغاز ہوا تھا شاہراہ دستور پر دھرنے کی شکل اختیار کر لی تھی
منگل 2 ستمبر 2014
بالآخر وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے انقلاب و آزادی مارچ جس کا 14 اگست 2014 کو لاہور سے آغاز ہوا تھا شاہراہ دستور پر دھرنے کی شکل اختیار کر لی تھی کا 17 روز بعد اس وقت ڈراپ سین ہوا جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے ہفتہ کی شب سوا نو بجے یک بعد دیگرے وہ دھرنے کو وزیراعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔ حیران کن حد تک دونوں رہنماؤں کے اعلانات میں مماثلت پائی جاتی ہے اگرچہ دونوں رہنماؤں نے اسلام آباد کی جانب الگ الگ مارچ کئے لیکن درپردہ وہ ایک ہی ”سکرپٹ“ کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے۔ آبپارہ سے شاہراہ دستور تک بڑھنے کا اعلان بھی دونوں نے اکٹھے کیا اسی طرح شاہراہ دستور پر اپنے الگ کنٹینرز سے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے رہے لیکن دونوں جماعتوں کے دھرنوں کا رنگ ڈھنگ ہی مختلف ہونے کے باوجود منزل مقصود ایک ہی تھی۔
(جاری ہے)
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کی کارروائی سے 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں چند خواتین بھی شامل ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار، خطہ پوٹھوہار کے بہادر سپوت ہیں وہ پولیس کی کارروائی کی ذاتی طور پر نگرانی کے لئے ریڈ زون پہنچ گئے انہوں نے پولیس سے ”فائر پاور“ لے لی جس کی وجہ سے بہت کم اموات ہوئی ہیں۔ تاہم پولیس نے جہاں مظاہرین پر تشدد کیا وہاں سے انہوں نے میڈیا کے کارکنوں پر بلاجواز تشدد کیا جس سے پورے میڈیا میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جلوسوں کو لاہور میں ہی روکنا چاہتے تھے لیکن مختلف قوتوں کی مداخلت سے انہیں اس یقین دہانی پر اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی لیکن دونوں رہنما تحریری یقین دہانی کے باوجود ریڈ زون میں داخل ہو گئے اور 12 روز سے شاہراہ دستور پر دھرنا دیئے رکھا۔ وفاقی حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم آفس اور سپریم کورٹ جانے کے راستے الیکشن کمشن اور ایف بی آر جانے کے تمام راستے بند کر دیئے۔ سپریم کورٹ وزیراعظم آفس، وزیراعظم ہاؤس اور کیبنٹ ڈویڑن و پاک سیکرٹریٹ کی حفاظت کے لئے فوج کے جوان تعینات کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا اعلان کیا۔ دراصل دونوں جماعتوں کی قیادت وزیراعظم ہاؤس پر ”قبضہ“ کر کے وزیراعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا چاہتی تھی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری جب خود کنٹینر میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔ عمران خان یہ کہتے رہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنا ہماری مجبوری ہے۔ سب سے آگے گولی کھانے کا دعویٰ کرنے والے قائدین نے اپنے آپ کو کنٹینرز اور بلٹ پروف گاڑیوں میں محفوظ کر لیا لیکن ان کے کارکن پولیس تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے والے کارکنوں میں عوامی تحریک کے کارکن زیادہ تھے جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد قدرے کم تھی۔ عمران خان نے اپنی خواتین کارکنوں کو مارچ سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار کا پولیس کارروائی کے دوران مسلسل رابطہ رہا اور چودھری نثار کو لمحہ بہ لمحہ کی کارروائی سے آگاہ کرتے رہے۔ وفاقی حکومت نے دھرنے کے شرکاء کو تھکا دینے کی پالیسی کے تحت 17 روز برداشت کیا۔ بالآخر ریاستی قوت استعمال کرنا پڑی۔ جب پولیس نے دھرنے کے شرکاء کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج کر کے پیچھے دھکیل دیا تو وہ پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلا توڑ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر داخل ہو گئے۔ فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی وجہ سے عوامی تحریک کے کارکن پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں بیٹھ گئے ہیں جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے۔ دھرنے کے شرکاء کی تعداد نمایاں حد تک کم ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں دو اڑھائی ہزار کارکنوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے شاہراہ دستور پر وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کے لئے واپس جانے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ مظاہرین تصادم میں کم و بیش 100 ملازمین بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ 24گھنٹے میں کیا ہو گا؟ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے مذاکراتی عمل بحال ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی تاہم ایک بات واضح ہے کہ وزیراعظم نواز شریف موجودہ سیاسی صورت حال میں پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے جہاں کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے وزیراعظم پنجاب میاں شہباز شریف بھی یہ کسی صورت ”ٹیک ڈاؤن“ کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف جو گذشتہ روز لاہور تھے اتوار کو اسلام آباد واپس آ گئے۔ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں مسلم لیگی قیادت کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا جس میں شاہراہ دستور پر دھرنے کے شرکاء سے پولیس تصادم سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا اور دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ پارلیمنٹ کے محاصرے میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ دو روز کے وقفے کے بعد حکومت ہر قیمت پر قومی اسمبلی کے اجلاس کو منعقد کرنے کی کوشش کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی قیادت کے حقیقت پسندانہ طرزعمل اختیار کرتی ہے اور سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے سیاسی تنازعات حل کرتی ہے یا پھر غیرجمہوری رویے سے تیسری قوت کو مداخلت کا موقع دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران مل جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Shahrah e Dastoor Maidan e Karzaar Ban Giya is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 September 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.