سندھ حکومت اور رینجرز مدمقابل

سرجن عاصم کے متعلق فیصلہ چند روز میں متوقع

منگل 22 دسمبر 2015

Sindh Hakoomat Aur Rangers Mad e Muqabil
الطاف مجاہد:
سدرن گیس میں بھرتیوں، ضیاء الدین ہسپتال میں دہشت گردوں کے علاج، میڈیکل کالجوں سے پیسے لے کر لائسنس دینے، سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے، منی لانڈرنگ، بلیک میلنگ اور کک بیکس جیسے سنگین الزامات میں ماخوذ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور رینجرز کی تحویل میں جے آئی ٹی نے سندھ حکومت کو مشتعل کر دیا ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ باخبر حلقے ”گورنر راج“ کی خبر دینے لگے۔

قائم علی شاہ، خورشید شاہ اور مولا بخش چانڈیو ہی نہیں پی بی کے دیگر چھوٹے بڑے بھی علی الا علان طعنہ زن ہیں حالانکہ اس سے قبل فشرمین سوسائٹی کے نثار مورائی، سلطان قمر صدیقی، منظور کاکا، شعیب سومرو، شرجیل میمن ، اویس مظفر ٹپی جانے کتنے نام انکوائری، گرفتاری اور تفتیش کی زد میں آئے کچھ بچ نکلے چند پکڑے اور عزیز بلوچ جیسے کئی ملک لائے بھی گے بعض نے اعترافات کر لئے اور بعض ابھی سامنے نہیں لائے گئے کہ ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہاں جب بھی کہانی میں ڈرامائی موڑ آیا وہ سکرین پر آکر نہ صرف اعتراف جرم کر لیں گے بلکہ ان کایہ اقدام بقول شخصے سیاسی بھونچال بھی لے آے گا۔

(جاری ہے)

سرجن عاصم کا شمار آصف علی زرداری کے قریبی لوگوں میں ہوتا ہے وہ اس منصب تک کیسے پہنچے؟ بتاتے ہیں کہ جب بی بی کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد آصف زرداری گرفتار اور سول ہسپتال کے آرتھو وارڈ میں زیر علاج تھے تو انہیں اس وقت وہاں آرایم او کی حیثیت سے ملازم ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنا کمرہ پیش کیا تھا یہ پیشکش قربت مستحکم کر گی اور پھر پی پی کے 93ء 2008 کے ادوار میں انہیں نوازا گیا اور بی بی کی شہادت کے بعد والے دورمیں بطور مثال کہا جاتا تھا کہ ” ملاقاتی اور مشقتی “ حکمرانی کر رہے ہیں۔

یہ وہ لوگ تھے جو ایام اسیری میں آصف زرداری کے قریب رہے ان ہی میں سے ایک سرجن عاصم بھی تھے۔ ویسے ان کا خاندانی تعلق علی گڑھ یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد مرحوم سے ہے جن کے نام سے یونیورسٹی اور ہسپتال قائم ہے۔ سندھ حکومت اور رینجرز میں تعلقات ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد ہی پوائنٹ آف نوریٹرن کی سمت بڑھے حکومت سندھ کا موقف ہے کہ دہشت گردی کا مقدمہ غلط بنا 90دن کے رینجرز ریمانڈ کے بعدوہ پولیس کے سپرد ہوئے اور اب وہ نیب کی تحویل میں ہیں۔

نارتھ ناظم آباد تھانے میں درج مقدمے میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے متحدہ اور پی پی کے رہنماوٴں کے کہنے پر اپنے ہسپتال میں ان جرائم پیشہ افراد کا علاج کیا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلوں میں زخمی ہوئے تھے۔ اور اس کی اطلاع پولیس یا دیگر اداروں کو نہیں دی تھی۔ساتھ ہی 93ء میں فلاحی مقاصد کے لیے ضیا ء الدین ہسپتال کو ملنے والی اراضی نجی تحویل میں لینے سدرن گیس میں خورد برد اور لے الیکٹرک کو اضافی کوٹہ کا بھی الزام تھا۔

سرجن عاصم ان تمام الزامات کا انکار کرتے ہیں لیکن ان کے قریبی حلقے بھی صدر زرداری سے ان کی قربت ‘ سینئر بننے، پٹرولیم جیسی وزارت سنبھالنے اور ہائرایجوکیشن کمشن کی سربراہی پر فائز رہنے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہونے کی توقع کر رہے تھے۔ اس سے قبل جب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لئے رینجرز نے کاررائی کی تو اس محکمے کے سربراہ منظور قادر بیرون ملک فرار ہو گئے۔

ان کی تقرری بھی کہا جاتا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے کہنے پر ہوئی تھی اوروہ ان کے بہت قریب تھے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں ادی فریال تالپور اور ادا اویس مظفر ٹپی کے احکامات کو بھی منظور کاکا نظر انداز کر دیا کرتھے تھے اس دور میں ایسی عمارتوں کی تعمیر کی منظوری دی گئی جو عام حالات میں تعمیر نہیں ہو سکتی تھیں ایسے بہت سے ”کاکا“ ادھر اُدھر ہو چکے ہیں اور کچھ گرفتار ہیں۔

سرجن عاصم کی عدالت میں پیشی کے موقع پر وکلاء میں نوک جھونک ہی نہیں تلخی بھی ہوتی رہی ہے اور اب تفتیشی حکام مبینہ طور پر ڈاکٹر عاصم کے فرنٹ مین کو سامنے لانا چاہ رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ مرجاوٴں گا کسی کی مرضی کا بیان نہیں دوں گا۔ سرجن عاصم کیس سے متعلق حتمی فیصلہ آنے والے چند روز میں ہو جائے گا کیونکہ رینجرزاختیارات کے معاملے پر حکومت اور رینجرز میں جاری سرد جنگ اب گرم ہوتی جا رہی ہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ وفاق سندھ پر چڑھائی کر ہی ہے اور یہ بھی کہ ہم نے رینجرز کودہشت گردی ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے اختیارات دیئے تھے وہ کرپشن کے خلاف مہم میں گھس گئی ہے نیز ایف آئی اے اور نیب کی کاررائیاں صوبائی حکومت کو بانام کرنے کی سازش ہیں۔

صوبائی حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں کمی کابل بھی منظور کر لیا ہے جس پر اپوزیشن ،وفاق اور رینجرز نالاں ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے بھی تفتیشی افسر کی رپورٹ کو مسترد کر دیا اور انسدادی دہشت گردی کی دفعات کو برقرار رکھتے ہوئے کیس دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ سندھ حکومت، وفاق اور رینجرز کے درمیان ہونے والی یہ سرد جنگ کہان جا کہ ٹھہرتی ہے اس کے لیے کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh Hakoomat Aur Rangers Mad e Muqabil is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 December 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.