سندھ اور کشمیر میں تبدیلی

پیپلز پارٹی پنجاب اور KPKمیں نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں پانچ سال حکومت کرنے کے بعدایک نشست نہیں جیتی جا سکی۔ اب آزاد کشمیر کے الیکشن میں بھی شرمناک شکست ہوئی ہے۔ کشمیر میں پی پی پی ہمیشہ ایک طاقتور پارٹی رہی ہے۔

بدھ 3 اگست 2016

Sindh or Kashmir Main Tabdeeli
منیر احمد خان:
پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کر دیا ہے تاکہ پارٹی کی رہی سہی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی جائے سید قائم علی شاہ آٹھ سال سے زیادہ عرصہ وزیراعلیٰ رہے۔ انکی سیاسی زندگی شاندار رہی ہے۔ ان پر کرپشن کا کبھی بھی الزام نہیں لگا لیکن انکی حکومت کو کون چلاتا رہا اس پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ آصف زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو کا مکمل کنٹرول رہا ہے۔

شاہ صاحب کی حیثیت ثانوی تھی۔ اب انکی یہ حیثیت بھی قبول نہیں رہی اور اگلے الیکشن کی تیاریوں کیلئے مراد علی شاہ کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور KPKمیں نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں پانچ سال حکومت کرنے کے بعدایک نشست نہیں جیتی جا سکی۔ اب آزاد کشمیر کے الیکشن میں بھی شرمناک شکست ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

کشمیر میں پی پی پی ہمیشہ ایک طاقتور پارٹی رہی ہے۔

بیرون ملک کشمیریوں نے بھی ماضی میں پی پی پی کا ساتھ دیا۔ 2016کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا آزاد کشمیر میں اتنا زیادہ فائدہ نہیں ہوا جتنا پاکستان میں نفسیاتی اثر ہوا ہے۔ پاکستان میں میاں نوازشریف کی تبدیلی کی باتیں ہوتی رہی ہیں ۔ ان ہاوٴس تبدیلی اورکبھی نئے الیکشن کی بات جبکہ مارشل لاء یا جنرل مشرف سٹائل حکومت کی بازگشت بھی سنی گئی۔

آزاد کشمیر الیکشن میں کامیابی نے وزیراعظم نوازشریف کی بیماری کی چھٹی بھی ختم کر دی اور وہ مبارکباد دینے مظفر آباد چلے گئے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پیپلزپارٹی کوپاکستان میں 2008ء کے الیکشن میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت دلائی۔گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کے الیکشنوں میں بھی کامیابی ملی۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ بلوچستان، سندھ اور KPK میں حکومت بنائی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت کی۔

آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی صفر+صفر رہی۔ 2013کے الیکشن میں ماسوائے سندھ کے وفاق اور تینوں صوبوں میں بری طرح شکست ہوئی۔ اب یہی حالت GB اور کشمیر میں ہوئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں یہی حشر ہوا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ ایک سال سے زائدعرصہ سے آصف زرداری ملک سے باہر ہیں۔ پارٹی کو ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

بلاول بھٹو کو پاکستان میں نمائشی رکھا ہوا ہے۔ اسکے سر پر ہر وقت پھوپھی سوار رہتی ہے بلاول کو لکھی ہوئی تقریر کے علاوہ بات کرنے کی اجازت نہیں۔ کوئی فیصلہ زرداری صاحب کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ وزیراعلیٰ سندھ احکامات لینے کیلئے آئے روز دبئی یاترا کرتے رہتے ہیں۔ رینجرز نے کراچی اور سندھ میں امن قائم کرنے کیلئے بڑا رول ادا کیا۔ کراچی کی روشنیاں بحال کیں ۔

جنرل بلال اکبر کا نام کراچی کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔ انکی قیادت اور جرات کی بدولت امن بحا ل ہوا ہے اسکے باوجود رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا مسئلہ ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا اور اب بھی سودے بازی ہو رہی ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ آصف زردری نے توسیع کا حکم دے دیا ہے۔ چلو اچھی بات ہے احساس ہوا۔ پارٹیاں ایسے نہیں چلائی جاتیں ۔

بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین کی نقل کرنا بہت مشکل ہے۔ الطاف حسین ایک مافیاکے باس کی حیثیت سے پارٹی کوکنٹرول کرتے آرہے ہیں۔ ڈر اور جبر کے ذریعے کراچی اور حیدر آباد میں پارٹی کو سنبھالے رکھا البتہ اسکے نتیجے میں کراچی کا امن تباہ ہوا۔ معیشت ختم ہو کر رہ گئی البتہ الطاف حسین کی مالی حیثیت بڑھ گئی۔ بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی میں ایک ایک کارکن سے رابطہ رکھ کر پارٹی کو زندہ رکھا۔

دنیا کے ہر کونے میں کارکن سمجھتے تھے کہ بے نظیر ان سے مشورہ کرتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو Visioniary اور بین الاقوامی لیڈر تھیں انہوں نے سیاست میں بہت محنت کی اور بہت قربانیاں دیں جس کی بدولت ان کی شہادت نے پارٹی کو 2008ء میں کامیاب کرا دیا لیکن فریال تالپور یا بلاول بھٹو کی کیا قربانیاں ہیں۔ آصف زرداری کے کھاتے میں جیل ہے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے جیل سے کچھ نہیں سیکھا۔

کرپشن روکنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ ایسے لوگوں کو وزیراعظم اور وزیر بنایا جنہوں نے دکانداری کھولی رکھی۔ اندازہ لگائیں کہ فریال تالپور کہتی ہیں کہ ” بے نظیر بھٹو کی ای میل سیاست نے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے اور ہر کوئی بے نظیرکی ای میل اٹھائے پھرتا ہے“ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ای میل سیاست نے کارکنوں سے رابطہ بڑھانے میں کامیاب رول ادا کیا اور پارٹی متحرک رہی۔

بے نظیر بھٹو دنیا کے کسی کونے میں بھی جاتی تھیں رابطہ رکھتی تھیں۔ اب پارٹی کی کیا حالت ہے اس کا اندازہ گزشتہ روز ملتان میں ہونیوالے پارٹی کے کارکنوں کی دھینگامشتی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر میں تبدیلی کا پاکستان میں کیا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اگلے 30 روز میں ہو جائیگا لیکن ایک بات طے ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر بھارت سے دوستی نہیں چل سکتی۔

بلاول بھٹو نے آزادکشمیر کے الیکشن میں ”نوازشریف مودی دوستی“ کو بھرپور استعمال کیا لیکن اس نعرے نے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں کی۔ وزیراعظم نے مظفر آباد میں کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگایا اور خود کو کشمیری ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد 40 سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کرفیو نافذ ہے جبکہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

کیبل ٹی وی چینلز بند کر دیئے گئے ہیں۔ گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر، کشمیر امیجز اور کشمیر ٹائمز جیسے اخبارات کے دفاتر کو تالے لگا دئیے گئے ہیں۔ عملے کو گرفتار کیا گیا اخبارات کی لاکھوں کاپیاں ضبط کر لی گئی ہیں۔ موبائل فونز چھین لئے گئے۔ طاقت کا استعمال کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی کوئی بھی مذہب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔

بھارت کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ بین الاقوامی طور پر یہ طے ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ اس پر پوری دنیا کو توجہ دینا ہو گی۔ جبکہ یہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد کئی نسلوں سے جاری ہے اور وہ حق خود ارادیت کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کا منصفانہ حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر جلد عملدرآمد کرنے میں ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کی حیثیت کو کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ پورا جموں کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ریفرنڈم کرانا ہی بہترین حل ہے۔ کشمیری عوام جسکے حق میں فیصلہ کریں دنیا اسے تسلیم کرے۔ بھارت جمہوریت کا چیمپئین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ اسے برطانیہ کی طرف دیکھنا چاہئے جنہوں نے سکاٹ لینڈ کیلئے ریفرنڈم کرایا اور حال ہی میں یورپین یونین کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کیلئے ریفرنڈم کرایا۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی کا احترام کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sindh or Kashmir Main Tabdeeli is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.