تحریک انصاف کا ججز سے انصاف کا سوال…

دھرنوں کا گرم موسم حکومت کیلئے ایک چیلنج!۔۔۔۔ کرپٹ نظام کیخلاف تحریک جاری رکھنے کا عزم‘ سیالکوٹ کے بعد سونامی نے بہاولپور کا رخ کرلیا

پیر 16 جون 2014

Tehreek e Insaaf Ka Judges Se Insaaf Ka Sawal
محبوب احمد:
پاکستان تحریک انصاف جس طرح دھرنوں کے چھکے مار رہی ہے اس سے حریف جماعتوں خاص طور پر ن لیگ کیلئے ایک غیر معمولی سا ماحول پید ا ہوچکاہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی پارٹی بن چکی ہے مگر کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جو ایک بڑی پارٹی کو زیب نہیں دیتے۔ تحریک انصاف کے حالیہ دنوں میں ہونے والے جلسوں میں جس طرح عوام نے شرکت کی اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور آچکی ہے اور وہ ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن بوکھلا ہٹ کا شکار نظر آتی ہے اور یہ دباؤ ن لیگ پرمزید بڑنے گا کیونکہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہیں اور دوسری طرف دھرنے ۔

ملک بھر میں موسم میں تبدیلی کیساتھ ہی سیاسی موسم بھی گرم ہوچکا ہے۔

(جاری ہے)

سیاسی موسم میں یہ تبدیلی حکومت کیلئے سرد مہری کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ روز اول سے ہی پاکستان کا طرئہ امتایز ہے کہ سیاسی موسم میں تبدیلی کو جمہوری لوگ جمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں، شاید یہ مصنوعی حسن بھی ہمارا ہی طرئہ امتاز ہے جسے دوام بخشنے کی خاطر آج کل ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان میدان میں نکلے ہوئے ہیں جن کے جھنڈے تلے ایم کیو ایم، ق لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ کی شرکت متوقع ہے، رہی پیپلز پارٹی کی بات تو پیپلز پارٹی کو شرکت کی دعوت بھی دی جائے گی مگر وہ اس کا حصہ بنتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی، اسکی ویک وجہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی دھرنوں کے بعد مذاکرات اور معاہدے کروانے میں مہارت رکھتی ہے۔

یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین جمہوری طریقے سے نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی عندیہ دیتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے جبکہ عوامی تحریک مکمل نظام الٹنے کی بات کرتی ہے جس طرح دونوں پارٹیوں کے نظریات اور ویژن نہیں ملتے اسی طرح کای دونوں جماعتوں کے قائدین اکٹھے مل کر حکومت کیخلاف کوئی تحریک چلا سکیں گے؟ آج کل نظام بدلنے کے بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔

ویسے بھی آپ کینیڈا میں بیٹھ کر امریکہ کا نظام ٹھیک نہیں کرسکتے، بنگلا دیش میں بیٹھ کر بھارت کا نظام نہیں بدلا جاسکتا ہے۔ نظام بدلنے او غریبوں، مزدوروں کے حق کی بات اس وقت ہی حقیقت لگتی ہے جب ان کے درمیان رہ کر ان کی زندگی میں شامل ہو کر جدو جہد کی جائے۔ یہ بات قابل صد افسوس ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کا نعرہ لگا کر عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے اقتدار میں آتی تو ہیں لیکن بعد میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو یکسر نظار انداز کردیتی ہیں۔


وطن عزیز کے مفلوک الحال عوام آج بھی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں لیکن دوسری طرف سیاستدان جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دینے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں تحرک انصاف کے جلسے میں عمران خان نے جن جذبات کا اظہار کیا اگر واقعی ان پر عملدرآمد ہوجائے تو عوام کو بنیادی سہولیات اور انصاف کے حصول کیلئے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔

11مئی کے انتخابات کا انعقاد ہو یا پھر انصاف کی فراہمی تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اس پر کھلی تنقید کرتے ہوئے ججز سے کہا ہے کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے کیا ججز اس قوم کو انصاف دیں گے؟ ۔ ججز ظالم اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا قوم جو حقیقی جمہوریت کیلئے تڑپ رہی ہے ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟۔عوام کو جب انصاف نہیں ملے گا تو سڑکوں پر نہیں جائیں گے تو کدھر جائیں گے۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ہم انصاف کی خاطر سڑکوں پر بھی نکلیں گے اور عدالتوں میں بھی جائیں گے۔ 47ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں عوام نے جلسے میں شامل ہو کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انصاف ڈھونڈنے کیلئے نکلنے ہیں۔ اس ملک کا ظالم طبقہ کچھ بھی کرلے قوم کے جذبے اور جنون کو نہیں روک سکتا۔ مسلم لیگ ن نے 2008ء میں 68لاکھ ووٹ حاصل کئے، 2013ء میں ایک کروڑ 45لاکھ ووٹ کیسے پڑگئے۔

کیا پچھلے پان سال میں پنجاب کے دور حکومت میں روزگار بڑھ گیا یا پولیس کا نظام ٹھیک ہوا؟ ہسپتالوں کا نظام ٹھیک ہوگیا؟ڈاکٹرز اور ٹیچرز پر تشدد ہو، پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں اور طالب علموں نے خود کشیاں کیں۔ جب تک ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آئے گی، پاکستانیوں کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے اور وطن عزیز میں خوشحالی نہیں آئے گی۔ عمران خان نے کہا کہ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ قوم کو تقدیر بدلنے کا موقع دیتا ہے، اگر اب بھی ہم نے انصاف نہ لیا تو جمہوریت اور انصاف کو کبھی بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔

یہ چھوٹا سا طبقہ باریاں لیتا رہے گا، امیر ہوتا جائے گا اور قوم غریب سے غریب تر ہوتی جائے گی۔ عمران خان نے وفاقی بجٹ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ صف امراء اور کرپٹ لوگوں کیلئے ہے جو بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں اور مہنگی مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیں لیکن ٹیکس کا ایک روپیہ نہیں دیتے، جو لوگ اس بجٹ سے فائدہ اٹھانے والے ہیں وہ اور ہیں جو پاکستان سے پیسہ چرا کر باہر لے کر گئے ۔

200ارب ڈالر باہر پڑا ہے اور قوم قرضے لے کر گزارا کررہی ہے جس کا سارا بوجھ مہنگائی کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرایا تھا کہ کفر کا نظام چل جائے گا لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ لہٰذا تحریک انصاف ظلم کا نظام نہیں چلنے دے گی۔
عمران خان نے 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے ھوالے سے جو سخت معوقف اختیار کیاہے اسے عوامی پذیرائی ملنا شروع ہوگئیہ ے او ریہ تاثر دھیرے دھیرے مضبوط اور وسیع ہورہا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔

اس حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بعض انتخابی حلقوں کے حوالے سے جو ڈویلپمنٹ ہوئی اس نے بھی عمران خان کے الزامات کو تقویت دی ہے۔ عمران خان مسلسل جن چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کا مطالبہ کررہے ہیں ان میں لاہور کا حلقہ این اے 122سرفہرست ہے جو پارٹی چئیرمین عمران خان کا حلقہ ہے اور یہاں سے موجودہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کامیاب ہوئے ہیں۔

دوسرا حلقہ این اے 154لودھراں ہے جہاں سے تحڑیک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین نے الیکشن لڑا تھا۔ 11اور 12مئی 2013ء کی درمیانی شب تک وہ کئی ہزار ووٹ کی برتری سے جیت رہے گھے مگر جب صبح کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ ”شکست“ دے چکے تھے۔ اس وقت سے اب تک جہانگیر ترین عدالتوں اور الیکشن ٹربیونل میں انگوٹھوں کی تصدیق کیلئے زنجیر عدل ہلارہے ہیں لیکن صدیق بلوچ ایک کے بعد دوسرا حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

تیسرا حلقہ این اے 125ہے جہاں سے تحریک انصاف کے اہم رہنما حامد خان نے الیکشن لڑا تھا لیکن مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق بھی کرشماتی انداز میں کامیاب ہوگئے۔ اس حلقے کے لوگ آج تک یہ گتھی سلجھانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ہر پولنگ سٹیشن پر تحریک انصاف چھائی ہوئی دکھائی دے رہی تھی اور اکثریت نے مہر بلے کے نشان پر لگائی مگر ان کی مہر کی سیاسی شیر سے کیسے جا لپٹی ۔

حامد خان جو کہ ملک کے نامور قانون دان بھی ہیں اور وکلاء سیاست میں عاصمہ جہانگیر کی طرح کنگ میکر کی حیثیت رکھتے ہیں وہ بھی خواجہ سعد رفیق کی جانب سے عدالتوں سے لئے جانے والے حکم امتناعی کا توڑ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔
چوتھا حلقہ این اے 110 ہے جہاں سے عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا اور ان کی پوزیشن بہت مضبوط دکھائی دے رہی تھی مگر وہی ہوا جو دوسرے حلقوں میں ہوا تھا۔

عثمان ڈار بھی انگوٹھوں کی تصدیق کیلئے خوار ہو رہے ہیں مگر خواجہ آصف نے بھی حکم امتناعی کی آڑ لے رکھی ہے۔ اسی طرح این اے 57اٹک بھی ایک ایسا حلقہ ہے جہاں سے تحریک انصاف کے امیدوارملک امین اسلم بہت مضبوط معلوم ہوتے تھے او غیر جانبدار حلقے انہیں جیتا ہوا کہہ رہے تھے مگر ان لیگ کے شیخ آفتاب یہاں سے کامیاب ہوئے اور انہوں نے بھی حکم امتناعی حاصل کررکھا ہے ۔

تحریک انصاف پنجاب کے بہت سے اہم رہنماؤں کا اصرار ہے کہ عمران خان کو اس حلقے کو پانچواں حلقہ بنا کراپنے مطالبے میں شامل کرلینا چاہئے کیونکہ اس حلقے کے بند تھیلو ں میں سے جو کچھ نکلنے کی امید ہے وہ تحریک انصاف کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ عمران خان کی یہ بات عام پاکستانی کو بھی متاثر کررہی ہے کہ اگر سب کچھ شفاف ہے اور کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر لیگی اراکین اسمبلی نے حکم امتناعی کیوں لے رکھے ہیں۔

انتخابی دھاندلی کے کلاف تحریک انصاف کے تین جلسے اسلام آباد، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ بالخصوص فیصل آباد کے جلسے کو ناکام بنانے کیلئے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی ہدایت پر منعقد کئے جانے والے میوزیکل کنسرٹ کے انقام کو سنجیدہ عوامی حلقوں نے ناپسند بھی کیا ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور اور دیگر شہروں سے فیصل آباد جلسے میں شرکت کرنے والوں کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی روکنے کیلئے ٹرانسپورٹرز پر دباؤ بھی ڈالا گیا تھا، اس کے باوجود لاہور سے اعجاز چوہدری او عبدالعلیم خان کی سربراہی میں بہت بڑا قافلہ قذافی سٹیڈیم سے روانہ ہوا اور اس کا راستے میں جس پرجوش انداز میں استقبال ہو ااسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سونامی کا زور ٹوٹا نہیں ہے۔


پاکستانی کے انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں بہت سے مبصرین تو آخر وقت تک یہ کہتے رہے کہ شاید انتخابات ہوں ہی نہ لیکن جنرل کیانی کے انتخابات کے حوالے سے دو ٹوک بیان کے بعد تمام شکوک و شبہات ختم ہوگئے اور گیارہ مئی کو عام انتخابات ہوئے۔ اس بار انتخابات کی ایک خاص بات یہ تھی کہ چیف الیکشن کمیشن تمام جماعتوں کی مشاورت سے بنایا گیا اور سب سے فخر الدین جی ابراہیم کی شخصیت پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن اس کے باوجود انتخابات کے بعد ایک دوسرے پر دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کرنے کی الزام تراشی تاحال جاری ہے۔

انتخابات میں جہاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن کو سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے وہیں ایک بڑی تبدیلی جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کا گراف بہت ڈاؤن نظر آیا اور اس کی بجائے تحریک انصاف سے عوام زیاد متاثر نظر آئی اور 2002ء میں صرف ایک سیٹ حاصل کرنے والی تحریک انصاف اب ایک بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔ مسلم لیگ ن نے انتخابات کا معرکہ مار کر وفاق اور پنجاب میں مضبوط حکومت بنائی ہے لیکن یہاں صورتحال اس کیلئے بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے جسے اس وقت حکومت کرنے کو ملی ہے جب ملک کو توانائی بحران ، بدترین معاشی صورتحال اور کرپشن نے بری طرح گھیر رکھا ہے۔

نئی حکومت کو ان بحرانوں سے قوم کو نکالنے کیلئے ہنگامی اور طویل المدتی منصوبے بنانا ہوں گے، ان میں سب سے اہم مسئلہ جس نے عوام کو ناراض کیا ہوا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ ان دنوں ملک شدید گرمی کی لہر اور بدترین لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت پر یہاں سب سے بڑی ذمہ داری نتی ہے کہ وہ در پیش بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ایسی پالیسیاں مرتب کرے کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جاسکے۔

توانائی بحران کے بعد کرپشن کا خاتمہ حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے کیوں کہ یہ کرپشن ہی ہے جس نے پی آئی اے، ریولے، سٹیل ملز اور اس جیسے پاکستان کے کئی انتہائی منافع بخش اداروں کو کنگال کر کے رکھ دیا ہے۔ سیالکوٹ کے بعد سونامی کا اگلا پڑاؤ اب بہالوپور میں ہے، تاہم آئندہ چند ہفتوں میں رمضان شروع ہوجائے گا جس کے دوران تحریک انصاف کی تحریک کچھ سست ہوجائے مگر رمضان کے فوری بعد تحریک انصاف کے احتجاج میں شدت آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب موجودہ حکومت کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tehreek e Insaaf Ka Judges Se Insaaf Ka Sawal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 June 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.