دیسی انگریز

انگریزی زبان میں بات کرنا فیشن بن گیا ہے۔۔۔۔۔ لوئرمڈل کلاس طبقے کی بھی یہی کو شش ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی سے واقفیت حاصل کرلیں۔ ملک بھر میں نجی انگلش میڈیم سکولوں کی بھرمار ہے

بدھ 20 اگست 2014

Desi Angraiz
جی زی:
ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی قومی اور مادری زبانوں کو فراموش کر کے اپنے بچوں کو انگریز بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ لوئرمڈل کلاس طبقے کی بھی یہی کو شش ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی سے واقفیت حاصل کرلیں۔ ملک بھر میں نجی انگلش میڈیم سکولوں کی بھرمار ہے جہاں بچوں سے بھاری فیسیں بٹوری جاتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ والدین اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے بچوں کو قومی اور مادری زبان سے دُورکر کے فخر محسوس کرتے ہیں اور اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ ان کا بچہ تو صرف انگریزی ہی جانتا ہے۔

اپنے بچوں کو انگریزی سکھانے کی کوشش میں نئی نسل قومی زبان اُردو اور علاقائی زبان سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے۔
بیٹا جلدی سے یہ شوز(جُوتے) پہن لو۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ہمیں شاپنگ (خریداری) کے لیے مارکیٹ (منڈی) جانا ہے۔ جتنی جلدی آپ ریڈی(تیار) ہو جاوٴ گے، اتنی جلدی ہمارے سارے کام فنش (ختم) ہو جائیں گئے۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ اور بول چال ہماری روزہ مرہ گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں۔

کم پڑھے لکھے والدین کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ نہیں تو کم از کم ان کے بچے بھی اس قسم کے الفاظ سے واقفیت حاصل کرلیں۔ اور اس کے لئے والدین اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ گویا یہ مقابلے کو فضا ہے جس میں ہر کوئی بڑھ چڑھ کے انگریزی بولنا چاہتا ہے۔خواہ اس کوشش میں غلط الفاظ بولتا رہے۔ زبان اظہار وبیان کا موثر وسیلہ ہے ہماری قومی زبان اردو ہماری شناخت کا بہترین ذریعہ ہے لیکن روز افزوں ترقی اور وقت کے تقاضوں کے پیش نظر انگریزی زبان کو اپنی قومی زبان پر فوقیت دی جانے کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے اُردو کی اہمیت میں خاصی کمی ہوئی ہے۔

جو بچے زمانہ طالب علمی سے ہی اُردو زبان میں دلچسپی لیتے رہے ہیں ان میں سے بیشتر ادیب، مصنف اور شاعر ابھرے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اہل علم حضرات نے اپنی زبان کی اہمیت کو جانا اور اسی زبان میں اپنی تخلیقات سامنے لائے۔
انگریزی زبان کو ترقی کا وسیلہ سمجھ کر اپنی زبان سے بے اعتنائی درست نہیں ہے۔ ہر زبان کا اپنا مقام اور خصوصیت ہوتی ہے اگر ہم اپنے بچوں کو ان کے ذوق اور مزاج کے مطابق علم وہنر سے بہرہ ور کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کریں تو وہ بہترین طالب علم ثابت ہو سکتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں کو اگر ان کی خواہشات کے مطابق پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو اس کے مثبت نتائج نکلتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ زور زبردستی یا ڈانٹ ڈپٹ سے بچوں میں منفی رجحانات جنم لیتے ہیں۔
ہماری ایک عزیزہ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں۔ بات کے انتقال کے وقت بچے چھوٹے تھے۔ وہ خاتون زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں ان کے بچوں نے گھر سے مادری زبان پنجابی سیکھی۔

اگر کوئی اُردو بولتا تو وہ پنجابی میں بات کرتے ۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے انہوں نے اردو بولنا اور لکھنا سیکھ لی۔ میٹرک تک چاروں بچوں نے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور اتنی ہی انگریزی سیکھی جتنی نصاب کا حصہ تھی۔ قابل غور امریہ ہے کہ ہائر سیکنڈری کی سطح پر اُن خاتون کا بیٹا فرفر انگلش بولنے اور لکھنے لگا۔ جب اس نے ایم بی اے کی اتو اسے اپنی قابلیت اور زبان وبیان کے باعث انٹرنیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی۔


مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے ۔ انگریزی زبان کا بڑھ چڑھ کر احیاء کیا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں بات کرنا فیشن کا حصہ بن چکا ہے اسے سٹیٹس سمبل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ملک میں نجی انگلش میڈیم سکولوں کی گویا وبا پھیل چکی ہے ہر ادارے کا مخصوص نصاب ہے جو کہ انگریزی زبان میں تعلیم دینے کا دعویدار ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو اسی قسم کے سکولوں میں تعلیم دلوانا چاہتی ہے۔

حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر غیر سرکاری سکولوں میں تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا۔ انگریزی زبان میں تعلیم دلوانے کا خواب دکھا کر ہزاروں روپے فیس کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں۔
ایک دانشور کا کہنا ہے کہ ستر کی دہائی تک صرف پنجاب کا درمیانی طبقہ تھا جو ماں باپ کے پنجابی ہوتے ہوئے بھی بچوں کے ساتھ اردو میں بات چیت کرتا تھا۔ سندھی، بلوچی، پٹھان خواہ امریکہ سے پڑھ کر آئے ہوں یالندن سے گھر کے اندر آپس میں ایک دوسرے سے اپنی زبان میں ہی بات چیت کرتے تھے۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے بلکہ لوئر مڈل کلاس طبقہ بھی خواہ اس کا تعلق کسی بھی صوبے سے یا علاقے سے ہو۔ گھر میں اور گھر سے باہر انگریزی زبان کا استعمال کرنا ناصرف باعث فخر سمجھنے لگا ہے بلکہ اس بات پر فخر کا اظہار بھی کرتا ہے کہ میرے بچے تو انگریزی ہی بولتے ہیں۔ دراصل میں انہیں شروع ہی سے انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم دلوائی ہے۔
کم پڑھے لکھے افراد انگریزی زبان بول کر اپنے آپ کو مہذب اور نواب خیال کرنے لگے ہیں۔


برطانوی دور میں یہ قول عام تھا کہ ” پڑھو گے، لکھو گے،بنو گے نواب، کھیلو گے، کودو گے ہو گے خراب“۔ یعنی انگریزی زبان میں مہارت کو نوابی یعنی افسری کا ذریعہ خیال کیا جاتا تھا۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی اور تعلیمی پستی کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ٹھیک طرح سے زبان کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنا نے کے باوجود ہم پس ماندہ سے پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔

انگریزی سیکھنے کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل قومی و مادری زبانوں سے دُور ہوتی جا رہی ہے۔ چین، جاپان، کوریا نے اپنی زبان کے سہارے ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ ترکی اور ایران اپنی زبان کے زور پر بڑے بڑوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ افغانستان بھی اپنے ڈاکٹر اور انجینئر اپنی زبان میں سامنے لا رہاہے۔
آج جو ہم نے انگریزی کو ترقی کا زینہ سمجھ لیا ہے تو لاکھوں کو ششوں کے باوجود یہ ہمیں انگریز نہیں بنا سکتی ۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سداسے ”لکیر کے فقیر“ ہیں۔ اس صورت حال میں صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع کبھی نہیں ملتا۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی قوم جتنا زور انگریزی زبان سیکھنے اور بولنے پر لگاتی ہے اگر انتا ہی زور اپنی زبان پر لگاتی تو شاید یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی جس کا آج ہم شکار ہیں ۔ ملک میں کرپشن اور رشوت کا دور دورہ ہے۔

طلبہ و طالبات کامیابی کے لئے نقل اور گیس پیپرز کا سہارا لیتے ہیں ۔ گویا ”تعلیم برائے ڈگری“ کا حصول پیش نظر ہے ۔ ہمارا تعلیمی نظام نہ جانے کس نہج پر جا رہا ہے۔ ایک شخص ایم اے کرنے کے باوجود ڈھنگ سے درخواست بھی نہیں لکھ سکتا۔ اندازہ کیجئے کہ وہ ملک جس کے کرتا دھرتا جعلی ڈگریوں میں ملوث پائے جائیں کس حد تک تنزلی کا شکار ہو سکتا ہے۔


سیاستدانوں سے لے کر فلم انڈسٹری کے فنکاروں تک غلط ملط انگریزی الفاظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ دنیا بھر آج میڈیا اس قدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ اس قسم کی حرکات لائیو دکھائی جاتی ہیں۔ ” لیکن ہمیں تو انگریزہی بننا ہے ہم اور ہمارے بچے دوسروں سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں“ ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سوچ ہمیں کہیں کا چھوڑے گی بھی؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنی اصلیت اور شناخت کو فراموش کر دینے والی اقوام کے لئے ترقی کا خواب ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Desi Angraiz is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 August 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.