قصور میں چوری ڈکیتی جوئے اور منشیات فروشی کے اڈے

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سرکل آفسران کی تعیناتیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا ہر آفیسر کے پیچھے کوئی طاقت ور سیاسی شخصیت ہی نظر آئے گی جو حکومت وقت کا کوئی نہ کوئی ستون ہو گی

بدھ 28 جنوری 2015

Kasur Main Chori Daceti Juee Or Manshiyat Farooshi K Aadde
حاجی محمد شریف:
بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ انگریز دور میں جو پولیس کی کارکردگی تھی وہ انتہائی تسلی بخش تھی۔ جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ چوری چکاری کا تو کبھی کبھا رہی کوئی واقعہ سننے کو ملتا تھا۔ اس دور میں لوگ کھلے کھیتوں میں بے فکر ہو کر نیند کے مزے لیا کرتے تھے۔ اور شہروں میں لوگ گلیوں اور گھروں کی چھتوں پر سکون کی نیند سوتے تھے۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ساری باتیں ایک خواب بن کر رہ گئیں ہیں۔ آباد ی میں اضافہ ہوتا گیا۔ نئی آبادیاں نئے شہر و دیہات آباد ہو رہے ہیں۔ نئے تھانے اور پولیس چوکیاں بنائی جا رہی ہیں۔ تا کہ جرائم پر قابو پایا جا سکے۔ دوسری طرف معاشرے میں بے روزگاری ، غربت کا عنصر پروان چڑھ رہا ہے۔ وسائل کی نسبت ضروریات بڑھ چکی ہیں ہماری حکومتیں ہمارے سیاستدار ہمارے وڈیرے ، جاگیردار اس ملک پر قابض ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اور اپنی اپنی حیثیت منوانے کیلئے اس ملک کے عوام کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور ملکی وسائل کی صرف اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ لمبی لمبی تقرریں صرف دکھا وے کی حد تک ہیں ایوب دور تک قانون کی کوئی حیثیت نظر آرہی تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو نے نعرہ دیا۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اس عظیم لیڈر کی سوچ اس ملک کے عوام کی فلاح و بہود اور معیار زندگی بلند کرنے کی تھی۔

مگر حالات نے عجیب رخ اختیار کیا۔ ملک دوٹکڑے ہو گیا اور ہمارے ملک کے سیاست دان باہی دست و گریبان کے چکر میں ہی رہے ایک کارنامہ سرانجام دے سکے وہ پاکستان کا مستقل آئین جس میں اس ملک میں اسلامی جمہوریہ قرار دیا۔ اور ملک میں اسلامی روایات کے فروغ اور اللہ کی حاکمیت پر سب متفق ہوئے مگر اس دور میں پیپلزپارٹی کے لیڈروں سمیت کارکنوں نے حکومت کو اپنی جاگیر سمجھ کر عجلت کا مظاہر کرنا شروع کر دیا۔

ہر ادارے میں اپنی مداخلت کو ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھ لیا۔ اور ہر ناجائز کیلئے بیوروکریٹس افسران کی تضحیک شروع کر دی خاص کر پولیس میں بے جا مداخلت اور ممبران اسمبلی کے من پسند افراد کو ضلعی تحصیل اورتھانہ کی سطح پر تعیناتیاں کی جانے لگیں پھر مارشل دور نے سر اٹھایا اور دس گیارہ سال میں بہت کچھ بگڑ گیا۔ کلاشنکوف کلچر م متعارف ہوا۔ ہیروئن چرس اور دیگر منشیات کھلے عام متعارف ہوئیں۔

سیاسی دباوٴ کے ساتھ پولیس پر اس لئے کلچرکا مزید بوجھ بڑ ھ گیا ناجائز اسلحہ رکھنے کا رواج عام ہو گیا۔ اور اراکین اسمبلی طاقت ور ہونے گئے۔ پولیس سیاستدانوں کے زیر اثرہوئی چلی گئی اور سیاستدان پولیس کو اپنی ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی اور تھانوں ، تحصیل ضلعی اور ڈویڑن کی سطح پر تعیناتیاں خالصتاً سیاسی وابستگیوں کی مرہون منت چلی گئیں ہم اپنے ضلع میں ہونے والے جرائم اور مجرم پیشہ افراد کی کاروائیوں کا ذکر نہیں کریں گے تو زیادتی ہو گی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سرکل آفسران کی تعیناتیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا ہر آفیسر کے پیچھے کوئی طاقت ور سیاسی شخصیت ہی نظر آئے گی جو حکومت وقت کا کوئی نہ کوئی ستون ہو گی۔ اس طرح جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی بھی کوئی سیاستدان یا با اثر شخصیت کی میں ہوگی اس وقت تمام سرکل آفیسرز جنہوں نے تھانوں کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے ان میں سے بیشتر اس سے قبل بھی ضلع میں تعینات رہے ہیں۔

اور تقریباً تمام علاقے سے واقف ہیں۔ کہ منشیات کے اڈے کہاں کہاں ہیں۔ جواء کون کون سی جگہوں اور کن کی سرپرستی ہو رہا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کن کن سیاست دانوں ڈیروں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسلحہ کہاں سے سمگل ہوتا ہے۔ شراب کہاں بنتی ہے۔ کہاں فروخت ہوتی ہے۔ اندازے کے مطابق ہر سرکل آفیسر کو تقریباً ہر جگہ کی مخبری ہوتی ہو گی مگر روز بروز جرائم چوری ، ڈکیتی ، راہزنی ، منشیات فروشی میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔

قتل ، اغواء ، زنا کے جرائم میں اضافہ بھی پولیس کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پولیس مقدمات درج کر کے یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پولیس کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پولیس مقدمات درج کر کے یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پولیس مستعدد اور چاک و چوبند ہے۔ مگر بیشتر مقدمات اندراج ہی نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو کسی دباوٴ یا پولیس کی لالچ یا مجبوری ہوتی ہے۔

ضلع بھر کی پولیس نے نے وطیرہ بنا رکھا ہے کہ کہیں سے ایک اور کہیں سے دو ملزمان کو گرفتار کر کے گینگ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ اور کئی ایک لا پتہ پرانے مقدمات ان کے کھاتے میں ڈال کر چالان کر دیئے جاتے ہیں۔ ان سے نہ تو کوئی ریکوئری کی جاتی ہے۔ اور نہ ہی مناسب شہادتیں پیش کی جاتیں ہیں اور ملزمان کو عدالتوں سے بری ہونے کے مواقع مہیا کر دیئے جاتے ہیں یا معمولی سزا دلوا دی جاتی ہے۔

اگر کوئی مدعی ریکوئری کیلئے زور دے اْسے اشاروں سے کہا جاتا ہے کہ ریکوئری ہمیں تو نہیں ملی اپنے پاس سے لے آئیں۔ مال مقدمہ ریکوئری ثابت کر دی جائے گئی۔ اس وقت ضلع بھر میں چوری ڈکیتی زنا، اغواکی وارداتیں عام ہیں۔ جوئے اور منشیات فروشی کے اڈے بدستور چل رہے ہیں۔ اور ہر تھانے کی حدود میں چلنے والے اڈوں سے تھانوں میں منتھلی بدستور مل رہی ہیں۔ عوام پولیس کے روایتی حربوں سے پریشان ہیں اور نالاں بھی ہیں۔22جنوری کی رات آٹھ ڈاکے پڑے جس میں مسجد نور کے پاس کمپیوٹر سنٹر اور لاہور روڈ پر سریے کی دکان بھی شامل ہے،ڈاکو فائر مار کر فرار ہو گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kasur Main Chori Daceti Juee Or Manshiyat Farooshi K Aadde is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 January 2015 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.