قانون سے جعل سازی ؟

ڈکیتی کے ملزمان جیل سے غائب ہو گئے۔۔۔ عام خیال یہی ہے کہ ملزمان کو سزا ملنے کے بعد جیل میں رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے یہاں ایسے مجرم بھی پائے جاتے ہیں جن کے لیے جیل کو ”سسرال“ قرار دیتے ہیں اور سزا ملنے کے باوجود جیل سے باہر آزادانہ گھومتے نظر آتے ہیں۔

منگل 29 مارچ 2016

Qanoon Se Jaal Saazi
عام خیال یہی ہے کہ ملزمان کو سزا ملنے کے بعد جیل میں رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے یہاں ایسے مجرم بھی پائے جاتے ہیں جن کے لیے جیل کو ”سسرال“ قرار دیتے ہیں اور سزا ملنے کے باوجود جیل سے باہر آزادانہ گھومتے نظر آتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں ایک ایسا گینگ بھی موجود ہے جو خود ہی جج یا عدلیہ اور دیگر اداروں کی جگہ کام کر رہاہے۔

گذشتہ دنوں ایڈیشنل سیشن جج ناصر جاوید رانا کی جانب سے سیشن جج لاہور کو ایک جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ جمع کروائی گئی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے ڈکیٹی کے مقدمات 8 خطرناک ملزمان کو جعل سازی کے ذریعے رہا کروا لیا گیا ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق اس گروہ کا سرغنہ وکیل سبطین علی ہنجرا ہے جس نے اپنے کلرک اور جیل انتظامیہ کے ساتھ مل کر جیل سے آٹھ خطرناک قیدی رہا کروائے۔

(جاری ہے)

رپورٹ سبطین ہنجرا گاڑیاں چوری کرنے والے گینگ کا بھی سرغنہ ہے ۔ اسی طرح اس نے مخالف وکیل کی جانب سے اس جعل سازی کے انکشاف پر اس کی گاڑی بھی غائب کروا دی ۔ ملزم کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ رپورٹ کے مطابق اس گینگ کے پاس تمام جعلی مہریں، دستاویز اور ججز کے دستخطوں کے نمونے بھی موجود ہیں جن کی مدد سے مجرموں کو رہا کروایا جاتا ہے۔

دیگر الفاظ میں یہ گینگ مجرم کی رہائی کے لیے جعلی سرکاری دستاویز تیار کرتا ہے جس پر ججز اور دیگر ذمہ داران کے دستخط اور مہریں لگی ہوتی ہیں۔ دسری جانب المیہ یہ ہے کہ جیل انتظامیہ نے بھی ایسی جعلی دستاویز کی تصدیق نہیں کروائی اور ملزمان کو رہا کر دیا۔ اسے محض لاپرواہی کہیں یا منظم منصوبہ بندی قرار دیا جائے ؟ کیونکہ جیل انتظامیہ کے پاس عدالتی روبکار کی تصدیق کا مکمل نظام موجود ہوتاہے۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کتنے قیدی جعلی دستاویز بنا کر رہائی حاصل کر لیں گے۔؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اب تک یہ گینگ کتنے خطرناک قیدیوں کو اسی رہا کروا چکا ہے ؟ کیا یہ آٹھ ملزمان ہی اب تک جعل سازی سے رہا ہوئے یا پھر ”فراڈ مافیا“ نے ملزمان رہا کروانے کے ”ٹھیکے“ لے رکھے ہیں۔ سوال تو ہماری جیل انتظامیہ پر بھی اٹھ رہے ہیں۔

کیا جیل سپرنٹنڈنٹ اسی طرح کسی بھی دستاویز کی بنیاد پر قیدی رہا کر سکتا ہے؟ سرکار جیل انتظامیہ کی تربیت کس طرح کرتی ہے وہ تو سب کے سامنے ہے لیکن ہمارے ہاں قانون پر عملدرآمد کروانے والے ہی کس حد تک جا رہے ہیں۔ اس پر بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ وکیل کا کام ملزمان کا مقدمہ لڑنا ہے لیکن وکیل ہی جعل سازی کے ذریعے ملزم رہا کروا رہے ہیں۔

جیل انتظامیہ کا کام ملزمان کی حفاظت اور انہیں قید رکھنا ہے لیکن اب جیل انتظامیہ ہی سزا پوری کئے بنا مشکوک انداز میں انہیں چھوڑ رہی ہے۔ ایک طرف ہم چلاتے ہیں کہ جیلوں کی سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے اور دوسری طرف سیکورٹی کے باوجود جیل کی دیواریں ان ”جدید ملزمان “ کوزیادہ عرصہ روکے رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ کوٹ لکھپت جیل سے 8خطرناک ملزمان کی قبل از وقت ”باعزت“رہائی نے ہمارے جیلوں کے نظام اور وکلاء کی ساکھ دونوں پر انگلیاں اٹھادی ہیں۔

جعل سازی کے ذریعے جیل توڑنے والے ملزمان تو دوبارہ گرفتار نہیں کئے جا سکے لیکن یہ ڈر ضرور لاحق ہو چکا ہے کہ اس قدر چالاک ملزمان کل پولیس کے ہی کسی عہدے پر فائز ہو کر نیا فراڈ کرتے نظر نہ آجائیں ججز کے جعلی دستخط کے نمونے اور جعلی مہروں کے ایسے استعمال نے ہمارے عدالتی نظام کی سکیورٹی پر بھی سوال اٹھا دئیے ہیں۔ اب ضروری ہو گیا ہے عدالتی روبکار کی تصدیق کا فول پروف نظام متعارف کرایا جائے کیونکہ عام شہریوں کا انصاف کے اس نظام سے بھی اعتبار اٹھ گیا تو جزا وسزا کا یہ سارا نظام ہی بے معانی ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Qanoon Se Jaal Saazi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 March 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.