شعبہ صحت میں بے چینی اور اقدامات

پنجاب میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح عوام کیلئے صحت کے مسائل موجود ہیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ مسائل صرف مریضوں اور انکے لواحقین کو ہی درپیش نہیں بلکہ شعبہ صحت کے تمام حلقے اپنی اپنی جگہ پر شاکی ہیں۔ آبادی میں اضافے اور خوراک کی منافع خوروں اور ملاوٹ سمیت ہر طرح کی بدعنوانی کے عادی سماج دشمن عناصر کے باعث بیماروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے

منگل 6 دسمبر 2016

Shoba e Sehat main Bechaini
بیدار سرمدی:
پنجاب میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح عوام کیلئے صحت کے مسائل موجود ہیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ مسائل صرف مریضوں اور انکے لواحقین کو ہی درپیش نہیں بلکہ شعبہ صحت کے تمام حلقے اپنی اپنی جگہ پر شاکی ہیں۔ آبادی میں اضافے اور خوراک کی منافع خوروں اور ملاوٹ سمیت ہر طرح کی بدعنوانی کے عادی سماج دشمن عناصر کے باعث بیماروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک ترقی پذیر اور قرضوں میں جکڑی ہوئی مملکت کے کسی بھی صوبے کی حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ بیماروں کی تعداد اور بیماریوں کی صورتحال کے تناسب سے پوری سہولتیں،ادویات ،ڈاکٹر،معاون عملہ اور ضروری مشینری کا بندوبست کر سکے۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کے لواحقین میں آئے دن جھڑپ اور نتیجے کے طورپر ڈاکٹروں، نرسوں اور معاون عملے کی طرف سے احتجاج کا ایک بڑا سبب بھی ہسپتالوں میں سو فیصد علاج معالجہ کی عدم دستیابی ہے۔

(جاری ہے)

پھر بھی شہبازشریف کے دور میں لوگوں کو صحت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچانے کیلئے بہت سے نئے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ شعبہ صحت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کو الگ سیکرٹری کے ماتحت کیا گیا تاکہ بڑے شہروں کی طرح چھوٹے قصبات اور مضافاتی علاقوں کے عوام کو پہلے سے زیادہ توجہ حاصل ہو سکے۔ ان علاقوں کیلئے ڈاکٹروں کی نئی تقرریاں کی گئیں اور لازم قرار دیا گیا کہ وہ کم از کم تین برس تک چھوٹے شہروں اور مضافات کے ہیلتھ مراکز میں خدمات انجام دینگے۔

صوبہ پنجاب کے بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں یعنی ٹیچنگ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کو زیادہ انتظامی اختیارات دیئے گے۔ اس سلسلے میں حکومتی حکمران سیاسی جماعت کی طرف سے خواجہ سلمان رفیق نے پہلے مشیر صحت کے طورپر اور اب وزیر صحت کے طورپر وزیراعلیٰ کی منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیرنے جو اب وزیر کے درجہ ترقی پا چکے ہیں بھرپور کردار ادا کیا۔

میں نے شعبہ صحت اور خاص طورپر بعض بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے اندر کے حالات کو قریب سے مشاہدہ کرنے کے کئی برس کے تجربات کی روشنی میں انتظامیہ اور ڈاکٹروں کے دکھ درد کو بیان کیا تو محکمہ صحت کے شعبہ پبلک ریلیشنز سے وابستہ ہمارے مہربان ڈپٹی ڈائریکٹر اخلاق صاحب نے احتجاج کرنیوالے بعض ڈاکٹروں کے ناپسندیدہ جملوں پر مبنی ویڈیوز سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ایسے لوگوں سے ہمدردی کا کیا جواز ہے؟ بلاشبہ احترام باہمی کے بغیر اور ایک دوسرے کاخیال رکھے بغیر کوئی سسٹم چل ہی نہیں سکتا۔

کچھ دن پہلے میں موجودہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ ہیلتھ کیئر کمشن کی ویب سائٹ دیکھ رہا تھا۔ عجیب بات ہے کہ اسکے چارٹر میں 2010ء کے تحت ایک خودمختار ادارے کے چار ٹر میں سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں، کلینک کے منتظم ڈاکٹروں کو 16 حقوق اور ان کے ذمہ سات فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ حقوق میں ہسپتال کی املاک ،ڈاکٹروں اور عملے کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے تمام اقدامات کی اجازت دی گئی ہے۔

چارٹر کے آخر میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ”کوئی ان جملوں کو اجازت کے بغیر استعمال نہیں کر سکتا۔“ اس وارننگ یا تنبیہ کو ایک طرف رکھیے ،سچ یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن اپنے مقاصد کی روح کے حوالے سے موجودہ حکومت کے شعبہ صحت کا ایک بہت اچھا اقدام ہے جو صحت کے نظام کو خاص طورپر نجی سطح پر عوام کے مفاد میں حالات کے کنٹرول کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

یہ اسی کمشن کا کارنامہ ہے کہ ہزاروں عطائی یا غیر مستند علاج گاہوں اور جعلی ڈاکٹروں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ہے اور عوام کی جان و مال سے کھیلنے والوں کو قانون کے حوالے کرنے کیساتھ ساتھ کروڑوں روپے جرمانہ کی شکل میں سرکاری خزانے میں جمع کروائے گئے ہیں۔ ہیلتھ کیئر کمیشن نجی شعبے میں ڈگری ہولڈر ڈاکٹروں کا معاون بھی بنا ہے اور ایلوپیتھی کیساتھ ساتھ دیسی اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو ایک ضابطے میں لانے کیلئے تربیتی نشستوں کا اہتمام بھی کر رہا ہے۔

حکومت پنجاب اورخاص طورپر وزیراعلیٰ شہبازشریف کے چھاپوں سمیت مختلف اقدامات کا مقصد صرف اور صرف عوام کو صحت کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچانا ہے ۔ یہ ساری جدوجہد اور بھی ثمر بار ہو سکتی ہے اگر صحت کیلئے سرکاری خزانے سے نکلوایا جانے والاسارا سرمایہ دیانتداری سے خرچ کیا جائے۔ ادویات اور طبی آلات کی خریدای میں گھپلے، انتظامی اختیارات کو پسند نا پسند کے مطابق استعمال‘ مختلف سطح پر دھڑا بازی اور اس قسم کی دوسری قباحتوں کے جو افسانے یا حقیقتیں فائلوں کا حصہ بنتی رہتی ہیں‘ اگر وہ نہ ہوں اور خوف خدا کو سامنے رکھ کر تمام متعلقہ حلقے اپنے فرائض اور حقوق میں توازن قائم کرکے چلیں تو محدود وسائل سے بھی ہمارے صحت کے ادارے امن، چین اور سکون کے مراکز میں بدل سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Shoba e Sehat main Bechaini is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 December 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.