آخری خواہش

امریکی پاپ گلوکار مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنزکی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت ’ جلد‘ نقوش اور حرکات وسکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹااور نسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آگیا۔

ہفتہ 12 نومبر 2016

Aakhri Khawahish
زاہد علی خان :
امریکی پاپ گلوکار مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنزکی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت ’ جلد‘ نقوش اور حرکات وسکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹااور نسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آگیا۔

اس نے 1982ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی۔ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی ‘ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولوٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں ‘ شہر شہر گیا‘ موسیقی کے شوکئے اور ان شوز سے کروڑوں ڈالرکمائے ۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ماضی کی باری آئی ‘ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کردیا اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا اس نے اپنے ایڈریسزتبدیل کرلئے ‘ اس نے کرائے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کرلئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلاگیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔

اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی بھی کرلی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوادیئے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرالیا۔ ڈیبی روکے بطن سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیداہوئی۔ اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑالی لہٰذا اس کی آخری نفرت یاخواہش کی باری تھی۔

وہ ڈیڑھ سوسال تک زندہ رہناچاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن طویل عمرپانے کیلئے دلچسپ حرکتیں کرتا تھا ‘ مثلاََ وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا ‘ وہ جراثیم ‘ وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتاتھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پرماسک چڑھالیتاتھا۔ وہ مخصوص خورا کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔

یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا‘ اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں ‘ گردوں ‘ آنکھوں ‘ دل اور جگر کا بندوبست بھی کررکھا تھا ‘ یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہاتھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کردیناتھے چنانچہ اسے یقین تھا وہ ڈیڑھ سوسال تک زندہ رہے گا۔

لیکن پھر 25 جون کی رات آئی اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی ‘ اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پر جمع کر لیا ‘ یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو یہ اسے ہسپتال لے گئے اور وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کررکھی تھی ‘ جوننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتاتھا ‘ جوکسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھالیتا تھا۔

جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا تھا۔ وہ شخص 50سال کی عمر میں صرف تیس منٹ میں انتقال کرگیا۔ اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کرگئی۔ مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبرگوگل پردس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی ‘ ہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔

مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا احتیاط کی وجہ سے اس کاجسم ڈھانچہ بن چکا تھا‘ وہ سرے سے گنجا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ‘ اس کے کولہے ‘ کندھے ‘ پسلیوں اور ٹانگوں پرسوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ” پین کلرز“ کامتحاج ہوچکا تھا چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز ‘ یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرزبھی اسے موت سے نہیں بچاسکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اُس جہان شفٹ ہوگیا جس میں ہرزندہ شخص نے پہنچتا ہے اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہوسکی۔

مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے ‘ انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کامقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہویا کوئی فرعون وہ دوٹن مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا۔وہ قبر کو شکست نہیں دے سکتا لیکن حیرت ہے ہم مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی خود کو فولاد کاانسان سمجھ رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aakhri Khawahish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.