ایک عورت کا خواب

ہسپتال کو فائیوسٹار ہوٹل بنادیا وہ جنون کی حدتک کام سے لگاؤ رکھتی اور عملہ کو بھی مستعدرکھتی

پیر 7 نومبر 2016

Aik Aurat Ka Khawab
بلقیس ریاض :
اکثر جب میں باہر کے ملکوں میں جاتی ہوں تو اپنی میزبان خاتون کے ساتھ وہاں کے ہسپتال ضرور دیکھتی ہوں۔ صاف ستھرے ہسپتال جدید آلات اور اچھے سٹاف اور باہر کی آلودگی سے پاک ہوتے ہیں ۔ وہاں ہسپتال ، ہسپتال ہی نہیں لگتا بلکہ فائیوسٹار ہوٹل کہہ سکتے ہیں۔ صاف ستھری کنٹین اور سٹورز اور عمدہ کچن جس میں بڑی صفائی کے ساتھ مریضوں کیلئے کھانا پکتا ہے۔

نرسزاور ڈاکٹر مریض کے بے حدخیال کرتے ہیں، جان تو اللہ کی ذات ڈالنے والی ہوتی ہے مگر وہ ان تھک محنت سے مریض کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان توایک طرف وہ حیوانوں کی جانوں کااسی طرح خیال رکھتے ہیں، میں وہاں کے ہسپتال دیکھ کرخدا سے یہ دعا کرتی کہ خدایا ہمارے ملک میں بھی اس طرح کے اسپتال بن جائیں ۔

(جاری ہے)


کافی سال کی بات ہے ۔ میں کوئٹہ گئی تو وہاں کے ہسپتالوں کا دورہ بھی کیا۔

جناح میڈیکل ہسپتال سے لیکر جتنے بھی سول ہسپتال تھے سب کی حالت نہایت ہی ابتردیکھی ہے․․․․․ ابھی میرا قیام کوئٹہ میں ہی تھا کہ ڈاکٹر رقیہ سعید کے گھر جانے کااتفاق ہوا تو میں نے کوئٹہ کے ہسپتالوں کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے میرے تحفظات سے مکمل اتفاق کیامگر پھر وہ زبردستی مجھے ایسے ہسپتال میں لے گئیں جو اُن کی محنت کی وجہ سے بالکل ترقی یافتہ ممالک کی طرز کا ہسپتال تھا۔

مجھے معلوم ہوا کہ یہ چلڈرن ہسپتال 70فیصد جرمنی کے تعاون سے قائم ہوا ہے۔ یہاں ننھے بچوں سے لیکر بارہ سال تک کے بچے علاج کروا سکتے ہیں۔ ہسپتال میں جدید آلات مہیا کیے گئے تھے ، خاص طور پر کینسر کی تشخیص کرنے کی پہلی مشین تو اس ہسپتال میں ملے گی۔ آٹو میٹک لانڈری ، جہاں پر کپڑے بڑی صفائی کے ساتھ ڈھل رہے تھے ۔ کوڑے کوجلانے کا پلانٹ اور بیسمنٹ میں کنٹرول روم بھی ہے جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔


مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہسپتال باہر کی آلودگی سے پاک تھا۔ بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جن کے شیشوں کے ذریعے باہر کا سبزہ اور رنگا رنگ پھول دیکھے جاسکتے ہیں ․․․․ یہ سب میرے لیے بہت حیران کن بھی تھا اور خوشی کا باعث بھی ۔ میری میزبان ڈاکٹر رقیہ سعید کاخاص مالی ان پودوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا ۔
ننھے بچوں کی ماؤں کیلئے وارڈ میں پلنگ بھی مہیا کئے گئے تھے اور ماؤں کیلئے عمدہ قسم کاکھانا پکوایا جارہاتھا ۔

اب میں نے ذرا مزید تحقیق کرنے کے لیے باورچی خانہ دیکھے کی ٹھانی ۔ اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہسپتال میں اتنا بڑا اور صاف ستھرا کچن موجود تھا جہاں ہر چیز قرینے اور نفاست سے ڈھکی ہوئی رکھی تھی۔ باورچی بڑی روٹیاں توے پرپکارہا تھا اس کے سر پرٹوپی تھی ․․․․․ یعنی چھوٹی چھوٹی باتوں کاخیال رکھا ہوا تھا ۔
ہسپتال میں 5سال سے لیکر 12سال کے بچوں کیلئے کھیلنے کا کمرہ بھی موجود تھا جہاں پر مختلف گیمزرکھی ہوئی تھیں۔

سامنے بڑا سابلیک بورڈتھاتا کہ وہ کھیل ہی کھیل میں کچھ لکھ پڑھ بھی سکیں ۔
دیواروں پر کارٹونز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔
سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ننھے بچوں کی نگہداشت کیلئے کمرہ تھا جہاں شیشوں کے بکسوں میں بچوں کو انکیوبیٹر (INQUBATOR) میں ج رکھا ہوا تھا۔ وہاں کو آکسیجن ماسک بھی لگائے گئے تھے ۔ اس کمرے میں جانے سے پہلے ڈاکٹر اور نرسزہاتھ دھو کر ایک خاص قسم کا گاؤن پہن کر بغیر جوتوں کے اس کمرے میں جا کربچوں کی دیکھ بھال اور مناسب علاج کرتے ہیں ۔


میں نے سرکاری ہسپتالوں اور اس ہسپتال کا موزانہ کیاتو مجھے بہت زیادہ فرق محسوس ہوا۔ سرکاری ہسپتالوں میں خاص طور پر بچوں کے لیے مناسب صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور یہاں کافی حد تک اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے یہ جان کراور بھی حیرت کاجھٹکا لگاکہ او پی ڈی میں جو مریض آتے ہیں اُن سے فی مریض صرف ڈھائی روپے فیس لی جاتی ہے ۔

اس قدر معیاری سہولتوں کے ساتھ یہ فیس لی جاتی ہے۔ اس قدر معیاری سہولتوں کے ساتھ یہ فیس دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ کنسلٹنٹ کو دکھانا ہوتو 100سور وپیہ فیس ہے۔ اگر ہسپتال میں داخل کرنا ہوتو بھی ہسپتال کا خرچہ بہت کم ہے ۔ جس میں ماؤں کاکھاناشامل ہے ۔ تجزیہ اور ادویات مریض کی اپنی ہوتی ہیں۔ ا س ہسپتال میں بغیر یونیفارم کے سکیورٹی آفیسر موجود ہیں واردات اور برا وقت آنے پر کودکر دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

چند ماہ تک یہ ہسپتال پورا کمپیوٹر ائزہوجائے گا یعنی اوپر کی منزل میں بیٹھے ہوئے انتظامیہ کو ہسپتال کے حالات کا پورا علم ہوگا۔ یعنی ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتال کی طرح کیمرے لگے ہوگئے ۔ اس چیز پر نظر رکھی جائے گی کہ کون آیااور گیا ، یا ہسپتال کا حملہ کس طرح سے مریضوں کی دیکھ بھال کررہا ہے ۔ ڈاکٹر رقیہ سعید کو جنون کی حدتک کام میں مگن دیکھ کر بھی مجھے بہت خوشی ہوئی۔

وہ پکڑ پکڑ کر نرسز کو لاتیں اور انھیں مریضوں کے بارے میں ہدایات دیتیں تاکہ وہ کام دیانتداری کے سے کرسکیں ․․․․․ یہاں جو بھی سٹاف رکھا جاتا ہے نرس سے لیکر ڈاکٹر تک ان کا باقاعدہ ٹیسٹ لیکر اس ہسپتال میں رکھا جاتا ہے ۔
ابھی تو یہ ہسپتال بالکل یورپ اور امریکہ کے معیار بنا ہے اور چل رہا ہے ، جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ ڈاکٹر رقیہ سعید کی ان تھک کوششوں سے یہ میعاری ہسپتال بن سکا ہے ۔

یہ اُن کاخواب تھا کہ پاکستان میں ایسا معیاری ہسپتال ہو جس کی مثال دی جاسکے ۔ وہ دلچسپی بھی نے رہی ہیں، اگر یہ ہسپتال غلط لوگوں کے ہاتھوں لگ گیا تو خدا نخواستہ اس کاحال باقی کے ہسپتالوں کی طرح نہ ہو جائے ․․․․․ یہ ایک عورت کی توجہ اور محنت سے ٹھیک چل رہا ہے ․․․․․ سچ ہے عورت تو قوم بناتی ہے ․․․․․ تو پھر ہسپتال ہے امید ہے ڈاکٹر رقیہ اس طرح محنت کرتی رہیں گی ․․․․ تو اس ہسپتال کو چار چاند لگ جائیں ․․․․․ کبھی کبھی سوچتی ہوں اب تو اور بھی تبدیلیاں آگئی ہوگی ۔ خدا کرے ملک کے باقی ہسپتال اسی طرح کے ہوجائیں ۔ (آمین )

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aik Aurat Ka Khawab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.