بھارت کا خفیہ ایٹمی پروگرام

ہائیڈروجن بم کیلئے یورینیم کی افزودگی خفیہ طریقے سے جاری دنیا میں جوہری ہتھیاروں کیلئے ایندھن کی تیاری میں سر فہرست

بدھ 30 مارچ 2016

Bharat Ka Khufia Atomi Program
رابعہ عظمت:
بغل میں چھری منہ میں رام رام کے اصول پر عمل کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں بیان دیا کہ ہم اپنے پڑوسیوں کیخلاف جارحانہ رویہ نہیں رکھتے۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ مودی نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے چانکیائی نظریات کے مطابق حکومتی پالیسیاں تشکیل دیں اور پی جے پی سرکار کامحور صرف اور صرف پاکستان دشمنی اور پاکستان پر اپنی دھاک بٹھانا ہے․․․․ دراصل ہمارے ہمسایہ بھارت پر علاقے پر اپنا جائز تسلط جمانے کا خبط سوار ہے۔

اپنے انہی عزائم کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس نے کشمیر کی آزادی کو سلب کررکھا ہے اور کشمیریوں کے حقوق غصب کرکے ان پر 8لاکھ فوج کا پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ بھوٹان، نیپال، سری لنکا بھی اس کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور بھارتی بنجہ استبداد میں ثابت نہیں ہوسکا۔

(جاری ہے)

خطے میں چین کی عسکری قوت کا مقابلہ کرنے اورپاکستان پر 96گھنٹے کے اندر قبضہ کرنے کی دھمکی دینے والے ہندوہنسیے کی امریکہ سے پاکستان کو ایف 16کی فراہمی نے نیندیں حرام کردی ہیں۔

اگرچہ ہندوستان نے کئی مرتبہ امریکی اعلان پر احتجاج بھی کی الیکن امریکہ نے اس پر اپنے کان نہیں دھرے۔ بھارت میں روسی، امریکی اور اسرائیلی اسلحے کے انبار بھی پاکستان کے لئے ہیں۔ حالیہ دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصد اضافہ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت اور ہتھیاروں کا دنیا میں واویلا مچانے والا بھارت گزشتہ کئی سالوں سے خفیہ جوہری منصوبے پرکام کررہاہے اور اس کے خفیہ ایٹمی پروگرام اور جوہری شہر کے راز کا بھی ایک امریکی جریدے نے انکشاف کیا ہے۔

یہ جریدہ لکھتا ہے کہ بھارت خطے کے سب سے بڑے جوہری منصوبے پر خفیہ طور پر کام کرریاہے۔ بھارتی ریاست کرنا ٹک میں2012ء سے جاری منصوبے کے قابل ہوجائے گا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کو دو بڑی بھارتی خفیہ ایجنسیاں کنٹرول کررہی ہیں جبکہ منصوبے کی نگرانی وزیراعظم ہاؤس سے کی جارہی ہے۔ بظاہر اس کا مقصد حکومت کی جوہری تحقیق کووسیع کرنا بھارت کے ری ایکٹرز کے لیے ایندھن پیدا کرنا اور نئی آبدوزوں کی طاقت بڑھانا ہے ۔

یہ بھارتی فوج کا سب سے بڑا کمپلیکس ہوگا جس میں سینٹری فیوجز کی تیاری جوہری ریسرچ ، لیباٹر، ہتھیار اور لڑا کاطیاروں کی سب سے بڑی تجربہ گاہ ہوگی۔ یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہوجائے گا۔ اس منصوبے کو بین الاقوامی معائنے کے لیے نہیں کھولاگیا کیونکہ اسے فوجی سہولت گاہ قرار دیاگیا ہے۔ تاہم بھارتی حکام کے مطابق کچھ تنصیبات کے حصوں کورواں سال کھولاجاسکتا ہے۔

یہ کرناٹک کے علاقہ” Chaelakere“ کے مقام پر قائم کیاگیا ہے۔ ریٹائرڈسرکاری حکام لندن اور واشنگٹن کی آزادانہ رائے کے حامل ماہرین کے مطابق اس خفیہ پراجیکٹ کاسب سے متنازع مقصد افزودہ یورینیم ایندھن کا اضافی ذخیرہ پیدا کرنا ہے، جسے نئے ہائیڈروجن بموں میں استعمال کیاجائے گا، جوتھر مونیوکلیئر ہتھیاروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ بھارت نے کبھی اپنے جوہری ہتھیاروں کی تفصیل شائع نہیں کی اور بھارت کے باہر بہت کم لوگوں کو اسٹرٹیجک مضمرات پر تعمیر کے بارے میں خبر ہے۔

مئی 2009ء میں امریکہ بھارت جوہری معاہدے کے کچھ دیر بعد کرنا ٹک میں خفیہ طور پر 4290ایکڑ زمین حاصل کی گئی تھی۔ 2010ء میں مزید 573ایکڑ اراضی لی گئی۔ 2012ء کے بعد بھارتی فوج کومذکورہ مقام پر دس ہزار ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ اس خفیہ منصوبے کی تعمیر کے لیے سینکڑوں برسوں سے آباد مقامی قبائل کو یہاں سے بے دخل کردیا گیا حالانکہ مقامی قبائلیوں کوزمین پر ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے خبر تک نہیں ہونے دی گئی۔

2012ء کے آغاز میں مزدوروں نے جب کرناٹک میں سبززار کی کی کھدائی کرنا شروع کی تو ایک خانہ بدوش قبیلے لمبانی کے کئی افراد چونک گئے۔ صدیوں سے سرخ لبادے والے چرواہے ان بل کھاتی اور نشیب وفراز والی چراگاہوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے تھے کوئی لیکن اب انہیں کسی وارننگ یاوضاحت کئے بغیر ادھر آنے سے منع کردیاگیا ہے۔ مونگ پھلی کاکاشار کرپٹر انگاسیٹی، جوکیلالی گاؤں میں رہتا تھا، اس نے ایک دن اچانک عوامی گزر گاہ کوخاردارتار سے بندپایا۔

اس کاہمسایہ، جو ایک چرواہا ہے، اس نے دیکھا کہ اس شہرسے قریبی دیہات تک جانے والی سڑک کارخ تبدیل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے جوالا ہے، کاریانہ جو گاؤں کی کونسل کارکن تھا اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ اس پر کاریانہ نے بھارتی ریاست کے افسروں سے پوچھا کہ قبائلی دیہات کی زمین کے گرددیوار کیوں تعمیر کی جارہی ہے۔ تاہم دوسری طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔

اس پرکاریانہ نے قانون کادروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے Envlronment Support Group کی مددحاصل کی۔ یہ گروپ سرسبززمین پر غیرقانونی تجاوزات بنانے کے خلاف قانونی جنگ لڑتا ہے ، تاہم اس مرتبہ یہ گروپ بھی کچھ کرنے میں ناکام رہا۔ افسروں نے اس کے وکلاء کو خبردار کیا کہ وزیراعظم کے دفتر سے اس منصوبے کو براہ راست کنٹرول کیاجارہاہے اس لئے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

جب اس سال اس مقام پر تعمیر شروع ہوئی تو قبائلی عوام پر واضح ہوگیا کہ اس منصوبے کے پیچھے دو خفیہ ادارے ہیں۔ اس منصوبے کے مقاصد کے تحت حکومت ہندکی جوہری تحقیقات میں اضافہ اور بھارت کے ری ایکٹرز کو جوہری تحقیقات میں اضافہ اور بھارت کے ری ایکٹرز کوجوہری ایندھن کی سپلائی ہوگی۔ اس کی مدد سے بھارت جوہری آبدوزوں کانیا بیڑا بنائے گا تاہم یہ مقصد صرف یہیں تک محدود نہیں۔

ماہرین کے مطابق اس مقام پر بھارت افزودہ یورینیم کانیا ذخیرہ جمع کرے گا جسے ہائیڈروجن بم بنانے میں استعمال کیا جائے گا۔ جوا س کے جوہری ہتھیاروں کے موجودہ ذخیرے کو بے پناہ طاقتور بنادیں گے۔ سی ایف پی سنٹرفار رپیسبلک“ کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات جس میں مقامی افراد کے علاوہ اس پروگرام سے وابستہ رہنے والے ریٹائرڈ سائنسدان اور فوجی افسران، غیر ملکی ماہرین ، انٹیلی جنس ، تجزیہ کاروں کے انٹرویو ز بھی شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے کچھ حصے اگلے سال فعال ہوجائیں گے۔

زیادہ ترین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سہولت کو جوہری ہتھیاروں کی بھاری پیداوار دے گی۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ادارے کے سابق چیف جان کارسن کے مطابق اس وقت دنیا میں انڈیا ان تینوں ممالک میں شامل ہے جو جوہری ہتھیاروں کے لیے ایندھن تیار کررہے ہیں۔اگر بھارت تھرمو نیوکلیئر ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوجات ہے تو وہ امریکہ، روس، چین، اسرائیل فرانس اور برطانیہ کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔

بھارت میں بہت کم حکام اس مسئلے پربات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو بھارتی انرجی ایکٹ ہے اور دوسرا آفیشل سیکرٹ ایکٹ جو انڈیا کے جوہری پروگرام پردہ ڈالتا ہے۔ ” چلا کرے“ میں قائم کی جانے والی تنصیبات میں وہ تنظیمیں کام کررہی ہیں، ایک ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اور دوسری بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر ہے۔ ان دونوں تنظیموں نے بھارت کے ایٹمی پروگرام کے تحت دینے کے لیے تیار نہیں۔

اسی طرح بھارت کی وزارت داخلہ بھی مکمل طور پر خاموش ہے۔ یورینیم کی افزودگی کا یہ سلسلہ ایک اور خفیہ مقام، ریئرمیٹریل پلانٹ جو ” چلاکرے“ سے ایک سو ساٹھ میل جنوب میں میسور شہر کے نزدیک ہے، میں چار سال سے جاری ہے۔ 2014ء سے اس مقام کی لی گئی سیٹلائٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں ہونے والی افزودگی بھارت کی جوہری ضرورت کے لیے کافی ہے۔

کچھ مغربی تجزیہ نگاروں کے نزدیک بھارت کے ہائیڈروجن بم کی تیاری کا یہ گراؤنڈ ورک مقام ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق نئے پلانٹ کی تنصیب سے فوجی مقاصد کیلئے بھارت کی یورینیم افزدوہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی جس سے زیادہ تباہ کن ہتھیار تیار کئے جاسکتے ہیں۔ امریکی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس خفیہ جوہری پروگرام کی کامیابی کاانحصار ٹیکنالوجی اور آلات کی غیر قانونی خریداری پر ہے۔

جس کا مقصد بھارت پر عائدبین الاقوامی پابندیوں پر قابو پانا ہے۔ بھارت پربین الاقوامی پابندیاں اس لئے لاگو ہوتیں کہ اس کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جونیوکلیئر ولیٹریشن ٹریٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ امریکی جریدے فارن پالیسی کے بقول ” چھلا کردے“ کے خفیہ منصوبے کا علم بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہیں۔ دومرتبہ بھارت کی مرکزی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے والے ایک معروف سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارت میں ارکان اسمبلی کو شاذونادرہی ملک کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کچھ بتایا جاتا ہے۔

سچ پوچھیں تو ہمیں پارلیمنٹ میں زیادہ معلومات ہی نہیں دی جاتیں اور ہمیں اس قسم کی خبروں کا علم مغربی اخبارات سے ہوتا ہے․․․․ سابق رکن اسمبلی اوروزیر ماحولیات جیارتھی نتارنجن نے بھارتی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا وہ دیگر بھارتی اراکین اسمبلی میں سے بار بہاجوہری امور پر سوال اٹھا چکے ہیں لیکن ہمیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔

بھارتی وزارت ماحولیات، جنگلات اور آب وہوانے نے میسور کے پلانٹ کی اکتوبر 2012ء میں منظوری دی تھی ۔ کہا گیاتھا کہ سوملین ڈالر مالیت سے قائم ہونے والا یہ پلانٹ سٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ اٹامک انرجی کے افسروں کی طرف سے لکھنے جانیو الے اس خط کو انتہائی سیکرٹ“ قراردیا گیا تھا۔ اس خط کے مطابق نئے سنٹری فیوجز لگائے جانے تھے تاکہ یورینیم سے ایندھن حاصل کیا جاسکے۔

یہ یورینیم شمالی بھارت کے گاؤں جادو گوڈا کے مقام پر واقع کانوں سے نکالی جاتی ہے یہ گاؤں ویئرمیٹرئل پلانٹ سے بارہ سو میل دور ہے۔اس پلانٹ کے لیے کرشناراجہ ساگرڈیم سے پانی حاصل کیاجاتا ہے۔ واشنگٹن میں اوبامہ انتظامیہ کے ایک سنیئر افسر کاکہنا ہے کہ ہمارے لیے بھی بھارتی ایٹمی پروگرام ہمیشہ پراسرار رہے ہیں، ان کے بارے میں حقائق نامعلوم رہتے ہیں۔

گرے سمیورنے 2009ء سے 2013 ء تک وائٹ ہاؤس آرمز اینڈ ڈبلیو ایم ڈیز کنٹرول کے کو آرڈپنیٹر کے طور پر کام کیا۔ ان کاکہنا ہے کہ مجھے یقین تھا کہ بھارت ہائیڈروجن بم بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ چینی ڈیٹرنس کے ہم پلہ ہو سکے، تاہم میں یہ نہیں جانتا تھا وہ ایسا کب کرپائے گا لیکن وہ اس کی کوشش ضرور کرے گا ۔ برطانیہ کے ایک سینئر سابق افسر جوہری امور پرکام کرچکے ہیں، کا کہان ہے کہ اٹلانٹک کے دونوں کناروں پر رہنے والے تجزیہ کار اس صورتحال پرتشویش رکھتے ہیں اور کچھ انڈیا کے تھرمونیوکلیئر پروگرام کو بھی مانیٹر کررہے ہیں․․․․ امریکی افسروں کاکہنا ہے کہ وہ بھی اس جائزے سے اتفاق کرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک افسر کے مطابق” میسور پر باقاعدگی سے نظر رکھی جارہی ہے۔ اب چلا کرے بھی ہماری نظروں میں ہے۔ کیول گاؤں کے نزدیک فوجی مقاصد کے لیے بنائے جانے والے نیوکلیئر پارک کارقبہ بیس مربع میل ہے جو سائز میں نیویارک ریاست کے دارالحکومت لبائی جتنا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فارسائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی، واشنگٹن کے تجزیہ نگار سیر ینا کیلیپر ور گینٹنی نے سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے تمام مواد کا گہرائی تک جائزہ لیا اور لندن کے ایک میگزین انٹیلی جنس ریویونے نے بھی آئی اے ای اے سے تعلق رکھنے والی کیلی سے رابطہ کیا۔

کیلی کے پاس ان عمارتوں کو تصویریں تھیں جنہیں وہ دیکھ کردنگ رہ گئی کہ ان عمارتوں کو اس قدر توسیع دی گئی تھی اور عمارتوں کی چھتیں اتنی بلند تھیں جن میں سے نیوجنریشن کے کاربن فائبر سنٹری فیوجز کولگایا جاسکتا تھا۔ یہ جدید سینٹری فیوجزمروجہ مشینوں سے زیادہ تیزی سے یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل پینل آن فیشل میٹریلز کے مطابق ایک لاکھ ٹن ٹی این ٹی کی طاقت کے حامل ہائیڈروجن بم کی تیاری میں 9سے پندرہ پاؤنڈ افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔

ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر سنیل چرایا تھ کاکہنا ہے کہ بھارتی حکومت ایٹمی پروگرام کی بابت کچھ تسلیم کرنے یا وعدے کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کے ایک سنیئر افسر کے مطابق انہیں حکومت کے سائنسدانوں کے وعدوں پر شک ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2007ء میں پابندیاں بٹنے کے بعد اب بھارت سویلین ایٹمی پروگرام اور بجلی پیدا کرنے کے جوہری منصوبوں کی آڑ میں وسیع پیمانے پر ہتھیار سازی کی تیاری کررہاہے۔

اس افسر کو شک تھا کہ اس مقصد کے لیے بھارت صرف مقامی طور پر پائی جانے والی یورینیم ہی نہیں، درآمد کردہ، جس کی اسے اجازت مل چکی ہے وہ بھی استعمال کرے گا۔۔۔ چلا کرے کے مقامی قبائلی باشندے کاریانہ نے اپنے خیالات کااظہار کرت ہوئے کہا کہ ” ہماری درخواستوں ، التجاؤں حتیٰ کہ عوامی نمائندوں تک رسائی کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارت نے ہمیں مسترد کرکے دیس نکالا دے دیا ہواور ہمارا اس سے کوئی تعلق باقی نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Ka Khufia Atomi Program is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.