کرپٹ بیوروکریٹس

حالانکہ فرق تواس سے کچھ پڑتا نہیں ہرباشعوران کی کارکردگی سے پریشان ہے

جمعہ 3 جون 2016

Corrupt Bureaucrats
کے این خان:
کہتے ہیں کہ کفرکی حکومت بہرحال کہیں بھی ہو چل جاتی ہے مگر کرپشن اور فلم کی حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل پاتی۔ یہ بات جس کسی نے بھی کہی تھی درست کہی تھی مگربعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں توایک عرصے سے کرپشن اور ظلم کی حکومتیں چل ہی نہیں، رہیں بلکہ سرپٹ دوڑ رہی ہیں اور ان کو دوڑنے سے روکنے کیلئے مختلف حلقے اپنے تئیں کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی اس جدوجہد میں روزبروز اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ظلم اور کرپشن کی حکومت کاخاتمہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس تناظر میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس حکومت کو لوگ ظلم اور کرپشن کی حکومت قرار دیتے ہیں، درحقیقت یہ ویسی نہیں ہے۔ پانامہ لیکس نے پاکستان کے ہی نہیں دنیا بھر کی بڑی بڑی شخصیات کی بدعنوانیوں کے راز فاش کردئیے ہیں جن میں سے بعض نے تو اخلاقاََ معذرت کرلی ہے اور بعض نے بداخلاقاََ ہٹ دھری کا ثبوت دیا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں بہت سے سیاستدانوں کی بدعنوانی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں اُس کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑنے دیتے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُن کے نام پرجو کچھ کیا ہوا ہمیں نظرآتا ہے‘ اُس کااُن سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا مگر وہ دوسروں کے کئے ہوئے اچھے کاموں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوا کرخوش ہوتے رہتے ہیں۔


سیاستدان خواہ کسی بھی جماعت سے ہوں، اپنے انہی حیلوں سے کبھی حکومت میں ہوتے ہیں اور کبھی حزب اختلاف میں۔ گویا اُن کے پاس وہ سکہ ہوتا ہے کہ جس کے دونوں طرف ہی ” میم“ ہوتی ہے، بدعنوانی کے خاتمے کیلئے عوام کے احتجاج کی تواب کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی ایک دوسرے کوبدعنوان ہونے کے طعنے دینے میں مشغول ہیں اور ہر ایک کے پاس اپنی اپنی بدعنوانی کی کوئی نہ کوئی دلیل بھی موجود ہے اور اس دلیل سے وہ پوری طرح سی چمٹی بھی ہوئی ہیں۔

اسکے ساتھ ساتھ حزب اختلاف والے حکومتی جماعتی کے اراکین کو ٹھیک کرنے پر مصر ہیں جبکہ حکومتی اراکین حزب اختلاف کے اراکین کو درست کرنا چاہتے ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جو خود کودرست کرنا چاہتا ہویا خوددرست ہونا چاہتا ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کی بدعنوانی کے چرچے ایک عرصے سے عوام سنتے چلے آرہے ہیں۔ اُن کے بارے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی انتقام کانشانہ بن رہے ہیں،اسلئے اگر اس کیس کو ایک طرف بھی کردیاجائے تو بدعنوانی کے جونئے کیس سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اُن کو نظرانداز کرنا تو ممکن نہیں ہے۔

پانامہ لیکس میں صرف حکمرانوں کے ہی نہیں بلکہ” چور چور“ کی پکار بلند کرنے والے بھی بذات خود اس صف میں شامل ہیں۔ اسکے بعدبلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے نقدی کی اتنی بڑی مقدار برآمد ہوئی کہ اسے گننے کیلئے مشینیں منگوانا پڑیں اور یہ مشینیں بھی دوشفٹوں تک چلتی رہیں۔ عوام سوچ رہے تھے کہ اتنے بڑے مالی سکینڈل کے بعد اور کیا سکینڈل آسکتا ہے مگر چندروز بعد ہی اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کا سکینڈل منظر عام پر آگیا۔

اُس کے گھر سے نوٹوں کی وہ تعداد تو برآمد نہیں ہوسکی جوکوئٹہ میں ہوئی تھی مگروہاں سے برآمد ہونے والے نوادرات اور دستاویز کی مالیت اُس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کیس میں نیب نے اپنے ہی ایک افسر کو بھی رشوت ستانی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ دفتر خارجہ کے گرفتار ہونے والے اعلیٰ افسر نے اپنے شریک جرم اور بھی کئی لوگوں کے نام لئے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سطور شائع ہونے تک اور بھی کئی لوگ اس حوالے سے پس زندان پہنچ چکے ہوں۔

اس صورتحال میں عوام جو حکمران کی عیاشیوں کیلئے ٹیکس دیتے دیتے واقعی ہی تھک چکے ہیں مگر انہیں ان کا اصل حق نہیں ملتا وہ اس مقولے کے تحت کہ جب دوران گفتگو دلیلیں ختم ہوجاتی ہیں تو شرکاگالیوں پراُتر آتے ہیں اور جب گالیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں تو پھر بددعاؤں پر اُتر آتے ہیں“ عوام بلاشبہ اب کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ سرکاری عہدیداروں کوہاتھ اٹھا کربددعائیں دیتے ہیں۔

اُن کی یہ بددعائیں اُنہیں کیوں نہیں لگتیں، اس پرہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ گزشتہ دنوں یونائیٹڈ فرنٹ بلوچستان کے کارکنوں نے کوئٹہ میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیاجس میں کرپٹ ایم این اے، کرپٹ بیورو کریٹ، کرپٹ سسٹم اور کرپٹ وزیر کے علاوہ مختلف کرپٹ کرداروں کے جنازے نکالے گئے۔ اس مظاہرے میں بے شک بہت زیادہ لوگ شریک نہیں ہوئے تھے مگر وہ اپنا پیغام سب تک پہنچا گئے ہیں۔

کرپٹ حکمرانوں کے کرپٹ بیوروکریٹس نے جس طرح کرپشن کی مثالیں قائم کی ہیں، اس سے ہرباشعور شخص کو تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ ایک بزرگ کاکہنا ہے کہ اُن کی خواہش ہے کہ ان علامتی جنازوں کی بجائے کرپٹ لوگوں کے اصلی جنازے یہاں ہوتے اور اُن کیلئے دعا کرنے والا بھی کوئی نہ ہوتا، انہیں کوئے اور چلیں کھاتے۔ اُن کی یہ خواہش توبہت ہی خوفناک ہے مگر یہ بات بھی طے ہے کہ کرپٹ افراد کا رویہ اس سے زیادہ خوفناک ہے۔ دوسری طرف بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ایسے مظاہرہ سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں، ہماراخیال ہے کہ فرق پڑتا ہے یا نہیں اپنے حصے کاکام ضرور کرتے رہنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Corrupt Bureaucrats is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 June 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.