سی پیک پاک چین راہداری منصوبہ اور سازشیں

پاک چین تجارتی راہداری کامنصوبہ (CPEC) پاکستان پر جنت کا دروازہ نہیں کھول دے گا اور یہ کہ بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو) کو طالبان نے ایران سے اغواء کر کے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ بیچا تھا۔ یہ گفتگو کوئی ایرا غیر آنتھو خیرا نہیں منجھا ہوا سفارتکار کر رہا تھا جسے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے بون سے بلوایا گیا تھا جرمنی کے مایہ ناز سفارتکار اور مشرقی وسطی امور پر مستند دانشور ڈاکٹر گنڑ ملائک پاکستان اور مشرقی وسطیٰ کے تمام اہم ریاستوں میں بطور سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں

جمعرات 8 دسمبر 2016

CPEC Pak China Rahdari Mansoba
محمد اسلم خان:
پاک چین تجارتی راہداری کامنصوبہ (CPEC) پاکستان پر جنت کا دروازہ نہیں کھول دے گا اور یہ کہ بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو) کو طالبان نے ایران سے اغواء کر کے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ بیچا تھا۔ یہ گفتگو کوئی ایرا غیر آنتھو خیرا نہیں منجھا ہوا سفارتکار کر رہا تھا جسے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے بون سے بلوایا گیا تھا جرمنی کے مایہ ناز سفارتکار اور مشرقی وسطی امور پر مستند دانشور ڈاکٹر گنڑ ملائک پاکستان اور مشرقی وسطیٰ کے تمام اہم ریاستوں میں بطور سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں ۔

جرمن سفارتکار یکم اپریل کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کراچی میں بہار عرب کے حوالے سے طویل خطاب کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلم دنیا پر پی ایچ ڈی کے بعد بطور سفارتکار چار دہائیاں، چالیس سال اسی خطے میں گزارے، وہ معلومات کے دریا بہاتے بہاتے اور پر مغز تجزیے کرتے کرتے اچانک اپنے موضوع سے ہٹ کر فرماتے ہیں کہ پاک چین تجارتی راہداری کا منصوبہ (CPEC) پاکستان پر جنت کا دروازہ نہیں کھول دیگا۔

(جاری ہے)

انتہائی عامیانہ زبان میں جسکا سفارتکاری کی شائستہ کلامی سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ یہ گفتگو حیران کن تھی جرمن سفارتکار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا کہ کلبھوشن یادیو کو طالبان نے ایران سے اغواء کر کے پاکستان کو بیچا تھا نہ کوئی ثبوت نہ کوئی دلیل، اتنا بڑا الزام لگایا اور روانی سے آگے بڑھ گئے۔ڈاکٹر گنٹر بھارتی حکومت کا سرکاری موقف بیان کر کے رخصت ہو گئے انہوں نے اس پیچیدہ کھیل میں اپنا کردار بہ احسن ادا کر دیا جس کے بعد اصل کہانی شروع ہوتی ہے 2 اپریل کو انگریزی روزنامہ (ڈان) کے کراچی میٹرو پولیٹن صفحہ 18 پر یہ خبر شائع ہوتی ہے جس کے آخر میں دونوں متنازعہ جملے موجود ہیں عرب بہار کی جمہوری لہر تو کب کی دم توڑ چکی اب تو یہ درس گاہوں کا نصابی موضوع ہے جس کا حالات حاضرہ سے کیا لینا دینا اور اس میں کیا خبریت تلاش کی جا سکتی تھی۔

ویسے ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس، مدیران گرامی کے مقدس ادارے میں پیشہ وارانہ قابلیت اور عالمی تال میل کو سمجھنے والے چوٹی کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے ڈاکٹر گنٹرملائک کی خبر کو مقامی شہری سرگرمیوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔
ڈاکٹر گنٹرملائک کے لیکچر کی خبر کی اس طرح غیر اہم اور توہین آمیز اشاعت پر بھارت کو ثبوت فراہم کرنے کے مشن پر کام کرنیوالے چالبازوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے تو پھر وہ کھل کر سامنے آگئے اور ڈان میں شائع ہونیوالی یہ غیر اہم خبر اگلے روز 3 اپریل کو مبینہ طور پر سب سے بڑا اشاعتی گروپ ہونے کے دعویداروں نے اپنے دونوں انگریزی اور اردو اخبارات میں شہ سرخی کیساتھ نمایاں شائع کی۔

کراچی میں ہونیوالی لیکچر کی خبر میں شہر کا نام تبدیل کر کے اسلام آباد کر دیا گیا تھا قارئین کو گمراہ کرنیکی سوچی سمجھی سازش کی گئی کہ جیسے یہ لیکچر کراچی نہیں اسلام آباد میں ہوا ہے جبکہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز کی کوئی شاخ تک اسلام آباد میں موجود نہیں ہے۔پاکستان میں یہ خبر شائع کر کے بھارت کو ثبوت فراہم کیا گیا ہے کہ پاکستانی اخبارات بھی کلبھوشن یادیو کے ایران سے اغو اء اور پاکستان کو فروخت کی ’مصدقہ‘ خبریں شائع کر رہے ہیں تاکہ عالمی سطح پر بھارت اس خبر کو دلیل کے طور پر پاکستان کیخلاف استعمال کر سکے جو کہ وہ اب کر رہا ہے۔

یہ کالم نگار ایک دہائی تک اس جنگجو گروپ سے وابستہ رہا خصوصی خبروں کی اشاعت کے طریقہ واردات سے جسکا ایک ایک لفظ میر صحافت کی اجازت سے ہی شائع ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ صرف اس غیر اہم اور پرانی خبر کو دوسرے دن نمایاں طور پر کیوں شائع کیا گیا؟ اسکے پس پردہ محرکات کیا ہیں اور کیا تھے؟ شہر کا نام تبدیل کر کے قارئین کو دھوکہ کیوں دیا گیا؟ اصل متن سے توجہ ہٹانے کیلئے طوطا کہانیاں کس نے لکھوائیں، پریس کونسل آف پاکستان اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) کو اس سنگین معاملے پر آزادانہ تحقیقات کرنی چاہئیے واضح رہے کہ (CPNE) کے بلوچستان سے رکن مدیران کرام پہلے ہی یہ شکایت کر چکے ہیں کہ پاکستان مخالف بیرون ملک مقیم باغی ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ان کی خبریں مقامی شہروں کی ڈیٹ لائن سے شائع کی جائیں جس پر بڑی لے دے ہوئی تھی۔

بھارتی موقف کی تائید میں ایک ثبوت پاکستانی سرزمین سے سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت کیوں فراہم کیا گیا ہے جس میں بڑی بڑی عالمی طاقتیں شامل ہیں۔ جنکے مقامی مددگار اور خیرخواہ اب بے نقاب ہو رہے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فارن افئیرز جنوبی ایشیا کی مایہ ناز دانش گاہوں میں شامل ہے جس کی موجودہ سربراہ ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری کابینہ ڈویڑن ڈاکٹر معصومہ حسن ہیں یہ انسٹی ٹیوٹ چوٹی کے دو سو سے زیادہ اداروں میں 16 ویں نمبر پر ہے۔

جہاں سینئر سفارتکار اور سفیر حضرات لیکچر دیتے رہتے ہیں ڈاکٹر گنٹر ملائک کو بھی اسی سلسلے میں مدعو کیا گیا تھا۔
کلبھوشن یادیو، اکھنڈ بھارت کا جانباز ہم سے بلوچستان چھیننے آیا تھا پکڑا گیا تو پاکستان میں اسے وکیل اور گواہان صفائی میسر آگئے۔ جو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ’را تو بیرون ملک دہشتگردی میں ملوث نہیں ہو سکتی کہ یہ اسکے دستور عمل میں شامل نہیں ہے البتہ پٹھانکوٹ میں لڑاکو حملہ آور پاکستان سے گئے تھے یہ کوئی اور نہیں ایسا سیاہ رو ”چڑی باز“ ہے جو سرکاری عہدیدار ہونے کے باوجود کھل کر ’را‘ کی وکالت اور کلبھوشن یادیوکی صفائی پیش کر رہا ہے۔

پاک چین تجارتی راہداری (CPEC) کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور بلوچستان میں بغاوت کی آگ بھڑکانے میں سب دوست دشمن یکجا اور متحد ہیں بد قسمتی تو یہ ہے کہ ان عالمی طاقتوں کو پاکستان میں بھی دوست اور مددگار میسر ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی رہائی کیلئے صرف نریندر مودی بے تاب نہیں افسوس صد افسوس عظیم تر جنوبی ایشیا اور سرحدوں کے بغیر جنوبی ایشیا کے نقشے بنانیوالے بھارتی موقف کی حمایت میں پاکستانی سر زمین پر ثبوت گھڑ رہے ہیں جواز اور دلیلیں تراش رہے ہیں۔

بھارتی نیوی کا حاضر سروس کلبھوشن یادیو جاسوسی کی دنیا کا ادنی پیادہ نہیں بلکہ اکھنڈ بھارت کا ایسا سرفروش ہے جس نے رضا کارانہ طور پر دشمن کی سر زمین پر پنجے گاڑنے کیلئے اپنے آپکو پیش کیا تھا کلبھوشن یادیو مقدر کا سکندر نکلا۔ ایسا خوش بخت جاسوس، دہشتگرد اور تخریب کار، حاضر سروس فوجی افسر جسے پاکستان میں ہمدرد ہی نہیں وکیل بھی میسر آگئے اور اب اس نازک اور حساس معاملے میں پاکستان کو ”مجرم“ بنانے کیلئے ثبوت گھڑے جا رہے ہیں جی ہاں یہ گھناؤنا کھیل دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔


رواں سال مارچ کے پہلے ہفتے میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا انکشاف ہوتے ہی بھارت نے موقف اختیار کیا کہ اس ’معصوم‘ بھارتی تاجر کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے ایران سے اغواء کرایا ہے جس کیلئے جیش العدل نامی گروہ کو استعمال کیا گیا ہے لیکن کلبھوشن یادیو کی حسین مبارک پٹیل کے بھیس میں موجودگی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکا کہ کلبھوشن یادیو حسین مبارک پٹیل کے بھارتی پاسپورٹ پر کیسے ایران میں موجود تھا۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے حوالے سے بھارتی موقف کو ثابت کرنے کیلئے عالمی سطح پر گھن چکر چلایا جارہا ہے کلبھوشن کو ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی تھی اکہ وہ بلوچستان کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ یہ حقیقت بھول گیا کہ جاسوس علاقے فتح نہیں کیا کرتے اور بلوچستان، مشرقی پاکستان نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

CPEC Pak China Rahdari Mansoba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.