”دہشت گردی کے خلاف پیچیدہ جنگ؟“

10 فروری کو کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ پیچیدہ ہے۔ دشمن ملکوں کی ایجنسیاں دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کر رہی ہیں

ہفتہ 13 فروری 2016

DehshaatGardi K Khilaf Paicheda Jang
اثر چوہان:
10 فروری کو کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ پیچیدہ ہے۔ دشمن ملکوں کی ایجنسیاں دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کر رہی ہیں اور پاکستان کے اندر ان کے ہمدرد اور سہولت کار موجود ہیں جو ان کو تحفظ اور پناہ فراہم کرتے ہیں۔“ جنرل راحیل شریف نے یہ بھی کہا کہ ”اِس کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف قوم کا عزم اور سکیورٹی اداروں کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں ہمارا حقیقی اثاثہ ہیں اور ہم پاکستان سے دہشت گردی ختم کر کے رہیں گے۔

“ جنرل راحیل جب اِس طرح کی باتیں کرتے ہیں تو قوم کو تسلّی ہو جاتی ہے۔ ان کی سربراہی میں پاک فوج کے افسران، جوان جس عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سرگرم عمل ہیں، قوم اس سے پوری طرح مطمئن ہے۔

(جاری ہے)

دہشت گردوں کی فنڈنگ کی ذمہ دار دشمن ملکوں کی ایجنسیوں سے کیسے نمٹنا ہے؟ یہ ان کے سوچنے کی بات ہے اور اندرونِ ملک دہشت گردوں کے ہمدردوں اور انہیں پناہ دینے والے سہولت کاروں کا معاملہ غور طلب ہے۔


عوام کو سوشلسٹ انقلاب کا جھانسا دینے والے ”قائدِ عوام“ ذوالفقار علی بھٹو کی ناکامی اور معزولی کے بعد اسلام کے علمبردار کی حیثیت سے اقتدار سنبھالنے والے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے دَور میں ایک ایسی نظریاتی جنگ شروع ہو گئی تھی جس کا تحریکِ پاکستان اور قائدِاعظم کے نظریہ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ملک میں اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کی ”مولویت“ کو فروغ دیا گیا۔

10 فروری کو ہی ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو جناب آفتاب سلطان نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ داخلہ کو بتایا کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد دو نسلوں کے ذہن تبدیل ہوئے اور اب ان ذہنوں کو بدلنے کے لئے دس سال لگ جائیں گے۔“ اگر یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ 9 ماہ کی مدتِ ملازمت میں جنرل راحیل شریف کِسی حد تک اِن ذہنوں کو تبدیل کر سکیں گے اور ذہن تبدیل کرنے کا باقی فریضہ ان کے بعد آنے والے جنرلز ہی انجام دیں گے؟ کیونکہ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی اپنی ترجیحات، مصلحتیں اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔

ان کے پاس قائدِاعظم کے افکار و نظریات کے مطابق قوم (خاص طور پر نئی نسل) کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
6 سال تک آرمی چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کبھی کبھی اپنی تقریروں میں قوم اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”نظریہ پاکستان“ کی یاد دلاتے تھے۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے 11 دِن پہلے اسلام آباد میں یومِ شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اِس خیال کا میڈیا اور سیاسی حلقوں میں کافی چرچا ہوا جب انہوں نے کہا کہ ”عظیم قربانیوں کے باوجود ہم اس منزل سے ابھی بہت دور ہیں جِس کا خواب علامہ اقبال اور قائدِاعظم نے دیکھا تھا ۔

“ کیانی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ”جمہوریت اور آمریت میں آنکھ مچولی "Hide and Seek" کا اعصابِ شِکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام سے نہیں بلکہ عوام کے شعور سے ہی ختم ہوسکتا ہے اور 11 مئی کے انتخابات کے بعد ہی جمہوریت کی اعلیٰ روایات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔“ پتہ چلا کہ عوام اور خواص کے شعور سے فی الحال کچھ بھی نہیں ہوا۔


اصولی طور پر قوم اور خاص طور پر سیاستدانوں اور سیاست میں سرگرم عمل مذہبی لیڈروں کو ان کے فرائض یاد دلانا کسی آرمی چیف کا کام نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمارے یہاں 1958ء سے اس طرح کی باتیں کرنے اور سننے کا رواج ہے۔ جنرل راحیل شریف اگر اِس طرح کا اندازِ خطابت اختیار نہیں کرتے تو ان کی مرضی ہے لیکن ابھی تک وہ اور وزیراعظم نواز شریف مل بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردوں کے ہمدردوں اور اْن کو پناہ دینے والے سہولت کاروں کا نام لے کر، ان کی نشاندہی نہیں کر سکے اور نہ ہی یہ کہ ان کا کس کس مذہبی فرقہ سے تعلق ہے؟ ڈی جی آئی بی جناب آفتاب سلطان کے بقول ”بعض مذہبی جماعتیں اور فرقہ وارانہ تنظیمیں (دہشت گرد تنظیم) ”داعش“ کی سوچ کی حمایت کرتی ہیں۔

“ انہوں نے بھی اْن مذہبی جماعتوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے نام نہیں گنوائے۔ اب انہیں کون پکڑے گا؟ کب اور کیسے؟
فی الحال بات واضح نہیں ہو رہی کہ جو مذہبی سیاستدان دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے بارے میں خم ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں کہ ”ہم انہیں شہید نہیں سمجھتے“ اور جنہوں نے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ اور اسامہ بن لادن کو ”سید الشہدا“ کا خطاب دے کر کہا کہ ”بگاڑ لو ہمارا اگر کوئی بگاڑ سکتا ہے۔

“ ان کا ریاست نے کیا بگاڑ لِیا؟ کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو اعلانیہ جمہوریت کو کفر کا نظام کہتے ہیں اور جو موری ممبر بھی منتخب نہیں ہو سکتے وہ بھی اپنی ”خلافت“ قائم کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں، انہیں کوئی کیوں نہیں پوچھتا؟ اسلام آباد میں منعقدہ ”پیغام اسلام کانفرنس“ کا یہ نعرہ اچھا ہے کہ ”داعش کا مقابلہ تعلیم سے کیا جائے!“ لیکن قوم کو یہ تعلیم کون دے گا؟ اور اس تعلیم کا نصاب کیا ہو گا؟ اور اسے کون مرتب کرے گا؟ فرض کیا کہ اگر مسلم لیگ ن 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بھاری مینڈیٹ نہ حاصل کر سکی تو کس سیاسی جماعت کی حکومت بنے گی؟ وزیراعظم کون ہو گا؟ اسے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لئے کِس کِس سیاسی، مذہبی پارٹی یا گروہ کی ضرورت ہو گی؟ اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑیں گے؟
وہ ”فلسفہ“ کم از کم پاکستان میں تو ناکام ہو چکا ہے کہ ”بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔

“ کبھی مفلوک الحال جمہور سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی خاندان کی جاگیریں بن چکی ہیں اور کئی سال سے معطل ”متحدہ مجلس عمل“ سمیت فرقہ بندی کی بنیاد پر قائم ہونے والی مذہبی جماعتوں کے اکابرین ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جن مذہبی جماعتوں کے اکابرین نے مصّورِ پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے خلاف کفر کے فتوے دئیے تھے وہ رسوا تو ہوئے لیکن ان کے ورثاء اس رسوائی کو تسلیم نہیں کرتے۔

کیوں نہ ایسے لوگوں پر ان کے بزرگوں کے فتوے واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا جائے؟ لیکن یہ کام ہے بہت مشکل۔
دینی مدرسوں میں ”مطالعہ پاکستان“ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا۔ اِس لئے کہ پھر ان مدرسوں کے طلبہ اور طالبات کو قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کے دوسرے اکابرین کی قومی خدمات کے بارے میں بھی پڑھانا پڑے گا۔ حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کی دولت اور جائیدادیں بیرونِ ملک ہیں اور ان کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں سے اپیلیں کی جاتی ہیں کہ ”آپ اپنے پیارے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔

“ یہ ”سیاسی کاروکاری“ کی پالیسی کب تک چلے گی؟ بیرونی دشمنوں اور اندرونِ ملک دہشت گردوں سے لڑی جانے والی جنگ واقعی پیچیدہ ہے۔ اب مفلوک الحال اور دہشت زدہ عوام جن کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں نہیں ہیں، وہ اگر قادرِ مطلق اور پیچیدہ جنگ کو لڑنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں پر بھروسہ نہ کریں تو اور کیا کریں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

DehshaatGardi K Khilaf Paicheda Jang is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.