دفاع ِپاکستان کشمیر کے دفاع کے بغیر نا مکمل ہے

27 اکتوبر کو یوتھ فورم فار کشمیر کی کانفرنس میں اطلاع ملی کہ وزیر اعظم پاکستان نے 20 ممبران پارلیمنٹ کو مسئلہ ِکشمیر پر لابنگ کے لیے نامزد کیا ہے اور وہ 9 ممالک کے 12 شہروں کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی کشمیر کے لیے لابنگ کریں گے۔ سُن کر خوشی ہوئی کہ چلو کشمیر کے معاملے میں ہماری حکومت میں کچھ ہلچل تو ہوئی۔ لیکن وہ خوشی بہت جلد ہی خاک میں مل گئی جب ان ممبران کی تفصیلات معلوم ہوئیں

منگل 6 ستمبر 2016

Difa e Pakistan Kashmir K Bagair Namukamal Hai
سیدہ قدسیہ مشہدی، یوتھ فورم فار کشمیر
27 اکتوبر کو یوتھ فورم فار کشمیر کی کانفرنس میں اطلاع ملی کہ وزیر اعظم پاکستان نے 20 ممبران پارلیمنٹ کو مسئلہ ِکشمیر پر لابنگ کے لیے نامزد کیا ہے اور وہ 9 ممالک کے 12 شہروں کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی کشمیر کے لیے لابنگ کریں گے۔ سُن کر خوشی ہوئی کہ چلو کشمیر کے معاملے میں ہماری حکومت میں کچھ ہلچل تو ہوئی۔

لیکن وہ خوشی بہت جلد ہی خاک میں مل گئی جب ان ممبران کی تفصیلات معلوم ہوئیں۔ غضب یہ ہوا کہ مقبوضہ کشمیر سے ایک صاحب نے مجھے ان چُنے گئے ممبران میں سے ایک ممبر قومی اسمبلی نواب علی وسان کی ایک ٹی وی چینل کودیے گئے انٹر ویو کی ویڈیو اس پیغام کے ساتھ بھیجی ”یہ دیکھ کر آپ کو پاکستان کی کشمیر پالیسی کی ’سنجیدگی‘ کا اندازہ ہو جانا چاہیے“۔

(جاری ہے)

وہ انٹر ویو دیکھ کر میں اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔ اُن صاحب کو مسئلہ کشمیر کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی، یہاں تک کہ جب اینکر پرسن نے اس ممبر قومی اسمبلی سے سوال کیا کہ وہ فاروق عبداللہ کی پالیسی سے متفق ہیں یا محبوبہ مفتی کی؟ تو ایم این اے صاحب نے جواب دیا کہ” میں اس بارے میں نہیں جانتا،اگر آپ یہ بتائیں کہ محبوبہ مفتی کون ہیں تو شاید میں جواب دے سکوں۔

“ یہ ویڈیو انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
جو شخص یہ تک نہیں جانتا کہ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلی کون ہے ، اس کو کشمیر پر بات کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا رہا ہے! اس پر تو فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ پھر وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ”ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے کیا کرنا ہے، وہ تو ابھی ہمیں بتایا جائے گا“ اور یہ کہ ”ظاہر ہے کہ ہم اپنے خرچے پر نہیں جائیں گے، وہ تو حکومت بندوبست کرے گی“۔

کیا پاکستان کی عوام کا پیسہ ممبران پارلیمان کی سیر و سیا حت کے لیے ہی رہ گیا ہے؟ کیونکہ اس طرح کے افراد کشمیر پر لابنگ کرنے سے تو رہے! ان نامزد ممبران میں سے جن سے انٹرویو لیا گیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نامزدگیوں کے لیے ان سے پیشگی مشورہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔
سب سے اہم بات یہ کہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے آپ کسی بھی کَس و ناکَس کو نہیں بھیج سکتے ہیں۔

جو بھی پاکستان کی نمائندگی کرنے بیرونی ممالک میں جائے گا ، وہ دنیا کے لیے پاکستان کا چہرہ ہے۔ اگر حکومت نے مندوبین بھیجنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اُن لوگوں سے یہ کام لیا جائے، جنہیں سفارتکاری کا سلیقہ ہو۔ صرف اُن لوگوں کو چناجائے جو ایک موٴثر اور واضح انداز میں مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ ایک بھی ایسا رکن پارلیمان نہیں چُناگیا جس نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ میں پہلے کبھی مسئلہ کشمیر اٹھایا ہو، وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دی ہوں یا کسی سفارتی دفد میں بطورِ مندوب شرکت کرچکا ہو۔


دوسرا یہ کہ حکومت کی جانب سے چناؤکا معیار بھی واضح نہیں ہے۔ البتہ جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ 20 میں سے 16 ممبرانِ وفد حکمران جماعت پی ایم ایل این سے تعلق رکھتے ہیں اور 2 حکومت کی اتحادی جماعت سے!کیا یہی چناوٴ کا معیار ہے؟ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے ایک بھی ممبر نہیں چنا گیا۔
اب آتے ہیں اس موضوع کے سب سے اہم پہلو کی طرفکہ کیا پاکستانی اراکینِ پارلیمنٹ کو کشمیر پر لابنگ کے لیے اُن ممالک میں بھیجنے کی ضرورت ہے جہاں ہمارے سفارتی مشن پہلے سے ہی موجود ہیں؟ اُن ممالک میں جو ہمارے سفارت کار متعین ہیں، وہ کس مرض کی دوا ہیں؟ویسے بھی اس بات کا جواز نہیں بنتا کہ پاکستانی ارکان پارلیمنٹ کو مسئلہ کشمیر پر لابنگ کے لیے بھیجا جائے، جب کہ آزاد جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی نے قریب ہی جولائی 2016ء میں حلف اٹھایا ہو اور مسعود خان جیسے ایک شاندار سفارتی کیریئررکھنے والے سفیر کو بطورِ صدرآزاد جموں و کشمیر منتخب کیا گیا ہو۔

لہٰذا ہمیں اِن جیسے صفارتکاروں․ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ وہ زیادہ موٴثر انداز سے'کشمیر کاز' کے لیے لابنگ کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے پاکستانی ارکان پارلیمنٹ کو مختلف ممالک میں بھیجنا ، خاص طور پر علی وسان جیسے ممبران کوبھیجنا، مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کرے گا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی 1990 سے قائم شدہ کشمیر پر ایک خصوصی کمیٹی موجود ہے تو پھر 20 ارکان پارلیمنٹ کی خصوصی ایلچی کے طور پر نامزدگی کا کیاجواز ہے؟ کیا 20 ارکان کی خصوصی مندوبین کے طور پرروانگی سے حکومت یہ پیغام نہیں دے رہی کہ کشمیر کمیٹی ابھی تک کشمیر پر کچھ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس کشمیر کمیٹی نے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا؟
موجودہ اراکین پر خصوصی کشمیرکمیٹی ،جو 2013 میں تشکیل دی گئی تھی میں پاکستان کی 8 بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے اور قومی اسمبلی میں 20 رکنی سیکرٹریٹ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔

اس کمیٹی کے چیئرمین ممبر قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمن کو ایک وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے جو کہ پاکستانی عوام کے دیے گئے ٹیکسوں کا بہت بڑا ضیاع ہے۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور ہر پاکستانی کے دل کی ڈھرکن ہے۔ یہ عہدہ اس شخص کے پاس ہونا چاہیے جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مخلص ہو، جسے کشمیر سے عشق ہو، جو اس مسئلہ کے ایک ایک پہلو سے واقف ہو اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے جنونی جذبہ رکھتا ہو۔

آخر پاکستان بھی تو ایک جنون اور عشق رکھنے والے شخص نے بنایا تھا۔
کشمیر کمیٹی کے بیان کردہ مقاصد میں شامل ہے:
1) مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم پر نظر رکھنا،
2) مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں آگاہی پھیلانا اور
3) جموں و کشمیر کی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو پیش کرنا۔


کیا یہ کشمیر کمیٹی اپنے مقاصد پر پورا اتر رہی ہے؟ ان تمام نکات کا جواب نفی میں ہی ملے گا۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کے ساتھ ہی بھارتی مظالم کی نئی لہر کے بعدیہ نام نہادکشمیر کمیٹی 3 اجلاس کر چکی ہے لیکن وہ بالکل موثر ثابت نہیں ہوئے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کا یہ منطقی حل نہیں ہے کہ ایک ادارے کی موجودگی میں اسی مسئلہ کے حل کے لیے ایک نیا ادارہ بنایا جائے۔

ہر بحران میں حکومت نئے کمیشن، کمیٹی اور ادارے بنانے کی بجائے اسی مقصد کے لیے پہلے سے موجود ادارے کو فعال بنائے۔ کیا ہماری حکومت کشمیر کے لیے یہ کام کرے گی یا یہ بھی افواج ِپاکستان کے ہی ذمے ہے؟
اگر ارباب اختیا ر تک یہ تحریر پہنچ جائے تو ان سے عرض ہے کہ کشمیر کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ تمام غیر فعال اراکین کو نکال کر ان لوگوں کے ہاتھ میں اس کمیٹی کی باگ دور دی جائے، جن کے دن رات مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صرف ہو رہے ہیں۔

ایسے کافی لوگ آپ کو آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر میں سے مل جائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے آپ کو آزاد کشمیر کوبیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ تب ہی آپ کشمیر پر اپنا موقف دنیا میں موثر اند ا زمیں پیش کر سکیں گے۔ اس کے لیے بیرونی ممالک میں مقیم کشمیری تارکینِ وطن کو بھی ساتھ شامل کیا جائے جن کی بڑی تعداد برطانیہ اور امریکہ میں موجود ہے۔


پاکستان سے صرف وہ لوگ اس کشمیر کمیٹی میں شامل کیے جائیں جوانٹرنیشنل ریلیشنز اور فارن افیرزمیں ماہر ہوں اور جو دنیا بھر میں پاکستان کے لیے اعلیٰ سفارت کاری کا تجربہ رکھتے ہوں۔ اور ان دونوں شرائط سے بھی زیادہ اہم خوبی میں پہلے ہی بیان کر چکی ہوں ، یعنی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جنونی جذبہ رکھنے والے افراد۔ جو دل میں کشمیر کے لیے درد رکھتے ہوں، وہ اس کام کو ایک نوکری سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کریں گے، ایک عشق جان کر نبھائیں گے،اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے۔


کشمیر صرف ایک خطے کا نام نہیں ہے۔ کشمیر صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہے۔کشمیر کوئی ہماری انا کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ صرف ایک ڈائلاگ نہیں ہے کہ 'کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے' بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ کشمیر سے ہمارا مذہبی، نظریاتی ، ثقافتی اور علاقائی تعلق ہے۔ جب کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی جابر افواج کے سامنے کھڑا ہو کردلیری سے پکار رہا ہے کہ 'ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے!" تو ہم پاکستانیوں کو بھی ان کشمیری بہنوں اور بھائیوں کا مان رکھنا ہے کہ ہاں وہ سچے ہیں! وہ ہمارے ہیں! وہ پاکستانی ہیں۔

وہ ہمارے بدن کا حصہ ہیں اور اپنے بدن پر دشمن کی یہ تلوار ہم برداشت نہیں کریں گے۔ یاد رکھیں! کشمیر پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ہے!اس 6 ستمبر کو یہ نہ بھولیے گا کیونکہ دفاع ِپاکستان آزادیِ کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Difa e Pakistan Kashmir K Bagair Namukamal Hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.