گیس نہیں آرہی۔۔۔کھانا کیسے پکائیں

سردی کی بجائے غلط پالیسیاں چولہے ٹھنڈے کررہی ہیں

جمعہ 27 نومبر 2015

Gas Nehin Aa Rahi Khana Kaisay Pakayen
نجیب لودھیانوی:
میدانی علاقوں میں موسم سرما آغاز ہوئے بھی تقریبا ایک مہینہ ہوچکا ہے۔ ایک وقت تھاجب سردی کے موسم کولوگ بہت انجوائے کیا کرتے تھے مگر گزشتہ چندسالوں سے سردی کاموسم ایک بھیانک خواب کی صورت اختیار کرچکاہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ پہلے لوگ سردی کوکھاپی کرگزارتے تھے۔ تب ان کے پاس ایندھن کے کئی ذرائع تھے۔

شہروں میں رہنے والے قدرتی گیس ے فائدہ اُٹھاتے تھے، کبھی پائے پک رہے ہیں تو کہیں مچھلی تلی جارہی ہے اور کہیں میوہ جات سے بھرپور حلوے پکائے جارہے ہوتے تھے۔گرماگرم سوپ اور اُبلے انڈے بھی سردی کودور کرنے میں معاو ن ہوتے تھے۔
چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو لوگ اپنا چولہا جلانے کیلئے روائیتی ایندھن ہی استعمال کیاکرتے تھے۔

(جاری ہے)

پھر ادارہ تحفظ ماحول وجود میں آیا تو عام آدمی یہ بتایا جانے لگا کہ لکڑی یادیگر ایندھن جلانے سے ماحول آلودہ ہوجاتاہے۔

اس کی وجہ سے پوری انسانیت کونقصان پہنچنے کاخطرہ ہے اسلئے اس ایندھن کوجلانے کی بجائے اس کی حفاظت اور جلانے کیلئے قدرتی گیس استعمال کی جائے۔ اُس وقت ہمارے ملک میں پالیسی سازوں کاخیال تھا کہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائزاتنے زیادہ ہیں کہ صدیوں تک جائیں تو پھر بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اسی خوش فہمی میں ہرجگہ قدرتی گیس کے کنکشن دے دئیے گئے۔

ساتھ ساتھ گاڑیوں میں بھی قدرتی گیس کوسی این جی کے نام پر بھرنا شروع کردیاگیا۔ سی این جی سے گاڑی چلانا خاصا سستا کام تھا! اسلئے موٹر سائیکل چلانے والے ترقی کرکے گاڑی چلانے لگے اور گاڑی چلانے والے بڑی گاڑی چلانے لگے۔ پھر ایک وقت آیا جب گاڑیوں میں سی این جی بھروانا بڑا معرکہ شمار ہونے لگا۔گاڑیوں کے مالک اور ڈرائیور گھنٹوں قطار میں لگ کر فلنگ کرواتے اور اگلے چندگھنٹوں میں اُس کوخرچ کردیتے تھے۔


لوگ اپنی گاڑیوں میں دھڑادھڑ سی این جی بھراتے رہتے اور ساتھ ساتھ یہ شکایت بھی کرتے رہتے ہیں کہ ان گھروں میں گیس نہیں آرہی ۔ لوگ یہ سمجھتے کہ سردی کی وجہ سے گیس پائپوں میں جم گئی ہے مگر حقیقت سے واقفیت بہت دیر سے ہوئی۔
ان حالات میں لوگوں نے ایندھن کے پرانے اور روایتی ذرائع کی طرف رجوع کیاتو معلوم ہوا کہ اپنی جدید طرز رہائش میں توان ذرائع کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

لہٰذا بازاری کھانے شرور ہو گئے جس سے کچن کے بجٹ کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی بیڑا غرق ہونے لگا۔ کم بجٹ اور زیادہ وقت کے حامل لوگوں نے اپنے گھروں میں ضروری تبدیلیاں کرکے پرانے ایندھن سے کام چلانا شروع کردیا۔ لوگوں نے گھروں کی چھتوں اور اپنے صحنوں میں چولہے بناکر پرانی لکڑی، گتا، پھلوں کے پھوک اور دیگر پرانا سامان جلا کر کھانا پکانا شروع کردیا۔

اس سے لوگوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ اس طرح کے ایندھن سے اُن کے اردگرد کا ماحول بھی خراب نہیں ہورہا سوائے اس کے کہ گھر کے درودیوار دھویں سے کالے ہورہے ہیں۔ پھر انہیں یہ بھی سمجھ آگئی کہ چمکتے درودیور خالی پیٹ زیادہ برے لگتے ہیں۔
شہروں میں رہنے والے بعض ٹیکنکل ذہن رکھنے والے لوگوں نے اپنے گیس کنکشن کے ساتھ غیر قانونی طور پر کمپریسر لگا کر گیس کاحصول آسان بنا لیا۔

بعض لوگوں نے گھروں میں ایل پی جی کے سلنڈر خریدلئے اُن میں گیس بھروا کرالگ سے چولہے خرید کرلگادئیے یاپھر پہلے سے موجود چولہوں سے پرانا کنکشن اُتار کرسلنڈر لگادیا۔
موسم سرماکے آغاز سے ہی ایل پی جی کے سلنڈر اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔ جیسے جیسے سردی کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں گیس کابحران کسی قدرکم ہوتاہے۔

ملک میں ایل پی جی گیس کے چھوٹے سلنڈر کے استعمال کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہونے لگا ہے۔ ایل پی جی گیس کے چھوٹے سلنڈروں کے استعمال میں اضافے کی دوبڑی وجوہات ہیں شہریوں کی غربت اور گیس لوڈشیڈنگ ہیں۔ لکڑی کی قیمت میں بیش بہااضافے کے بعد غیرب عوام کے پاس گھر کاچالہا جلانے کیلئے ایل پی جی گیس کا چھوٹا سلنڈر بہترین آپشن ہوتاہے۔ چھوٹے سلنڈروں میں گیس ری فلنگ کاکام کرنے والے دکانداروں کاکہناہے کہ اُن کے پاس گیس بھروانے کیلئے آنے والے گاہک 30سے 50روپے کی گیس بھی بھرواتے ہیں۔

اس سے اُن کے دودن گزرجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ اپنے گھروں کیلئے بڑے اور کمرشل سلنڈر بھی بھرواکرلے جاتے ہیں۔ ہوٹلوں اور ریستورانون کے مالک بھی کمرشل سلنڈر بھرواکرلے جاتے ہیں۔
گھرکاچولہا جلانے کیلئے امراء اور ماحول کوصاف ستھرا رکھنے کے شوقین افراد بجلی کے بڑے بڑے ہیٹر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں زیادہ ترواپڈ کے ملازمین شامل ہیں ورنہ عام لوگ توبڑی ہیٹر کیاچھوٹے ہیٹر چالنا بھی افورڈنہیں کر سکتے۔


موسم سرماکی شدت میں اضافہ ہوتے ہی گیس کی ری فلنگ کاکام عروج پر پہنچ جاتاہے۔ اس بارے میں دوآراء سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ شدید سردی کے باعث قدرتی گیس پائپوں میں جم جتی ہے جس سے اس کاپریشر کم ہوجاتاہے۔ اسلئے شہریوں کوگیس کے حصول میں دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سردیوں میں گیس کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہونے پرمحکمہ سوئی گیس جان بوجھ کرپریشر کم کردیتاہے تاکہ شہری دن بھر گیس ہیٹر کااستعمال کرکے گیس ضیاع نہ کریں۔

جب شہریوں کو کھانا پکانے کیلئے گیس نہیں ملتی تو وہ ایل پی جی کے چھوٹے سلنڈروں میں گیس بھروانے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
شہریوں کی مشکل میں اُس وقت اضافہ ہوتاہے جب حکومت گیس ری فلنگ کرنے والے دکانداروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ گیس ری فلنگ کے دوران حادثات رونما ہوجاتے ہیں۔ جب شہریوں کوکھانا پکانے کیلئے گیس نہیں ملتی تو وہ برتن اٹھائے سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف احتجاج شروع کردیتے ہیں۔

شہریوں کے احتجاج کومدنظر رکھتے ہوئے حکومت اُن پر یہ احسان کرتی ہے کہ اُن کاصبح وشم دواقات میں کھانا پکانے کیلئے مکمل پریشر کے ساتھ گیس فراہم کردی جاتی ہے۔ یہ اس بات کابڑاثبوت ہے کہ سردی میں پائپوں میں گیس جمتی نہیں بلکہ محکمہ کی جانب سے جون بوجھ کراس کاپریشر کم کردیاجاتاہے۔
شہریوں کودووقت دوائی کے طور پر گیس مہیا کرکے حکومت سمجھتی ہے کہ اُس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے لیکن یہ کوئی پائیدار حل نہیں ہے کیونکہ شہریوں کوتوسارا دن گیس کی ضرورت رہتی ہے۔

چائے بنانا بچوں کادودھ گرم کرنا، کھانا گرم کرنا اس طرح کے بیسیوں کام ہوتے ہیں جولوگوں کوکرنا ہوتے ہیں۔ سردیوں میں لوگوں کوسب سے زیادہ چائے کی طلب ہوتی ہے۔ کئی لوگ اپنے گھروں میں اینٹوں کاعارضی چولہا بناکرچائے بناتے ہیں۔ اس طریقے سے انہیں شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ساراگھردھوئیں سے بھرہوتاہے۔ برتن جل کرکالے ہوجاتے ہیں اور تواور گھر والوں کاسانس لینا مشکل ہوجاتاہے۔


آج عوام کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ گیس نہ ملنے پر لکڑیاں اور ایندھن کے پرانے ذرائع استعمال پر مجبورہیں۔
عوام کاخیال ہے کہ سابق حکومتوں نے کرپشن کی داستان رقم کرتے ہوئے سی این جی سٹیشنوں کوبیشمار لائسنس جاری کرکے گیس بحران پیداکرنے میں کلیدی کرداراداکیا۔ حکومت نے صنعتوں اور گھریلو صارفین کوگیس فراہم کرنے کی بجائے ٹرانسپورٹ کوگیس مہیا کرکے ملک وقوم کے ساتھ ناانصافی وزیادتی کی۔

موجودہ حکومت عوام کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے گیس کے نئے ذخائردریافت کرنے کی بجائے دوسرے ملکوں سے مہنگی گیس درآمد کرنے کیلئے پرتول رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال کیاہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ان وسائل کوکھوج لگاکر تیل وگیس کے نئے ذخائر دریافت کرکے انہیں اپنے عوام کومہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی برآمد کرتے لیکن ہم اپنی نااہلی کے باعث دوسروں ملکوں سے گیس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Gas Nehin Aa Rahi Khana Kaisay Pakayen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.