گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ حکومتوں کے لیے آزمائش

موسم سرما میں بھی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج شدت اختیار کر چکا ہے۔ جگہ جگہ حکومت کے خلاف احتجاج اور نعر ے بازی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف بھی عوامی ،صنعتی اور تجاری حلقوں کے صبر کا پیمانہ لیبریز نظر آرہا ہے

پیر 11 جنوری 2016

Gas o Bijli Ki Load Shedding
احمد جمال نظامی:
موسم سرما میں بھی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج شدت اختیار کر چکا ہے۔ جگہ جگہ حکومت کے خلاف احتجاج اور نعر ے بازی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف بھی عوامی ،صنعتی اور تجاری حلقوں کے صبر کا پیمانہ لیبریز نظر آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح محض دعواوٴں ، نعروں اور وعدوں کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کررہی۔

پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن ،پاور لوم انڈسٹڑی، ہوزری ،مختلف شہروں کے ایوان صنعت وتجارت اور بیشتر تجارتی تنظیمیں توانائی بحران کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں سے ناخوش نظر آرہی ہیں جو کہ مستقبل کے حوالے سے ان کی طرف سے حکومتی دعووٴں پر عدم اعتماد کا کھلا اظہا رہے ۔

(جاری ہے)

اس وقت بجلی اور گیس کی قلت اور نئے پیداواری منصوبوں کی صورت میں حکومت کی طرف سے متضاد قسم کے دعووٴں کا سلسلہ جاری ہے۔

گیس کی لوڈشیڈنگ پر حکومت تاپی منصوبے کی اوٹ لے کر مستقبل کے حوالے سے سنہری خواب دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ بجلی آر ہی ہے۔ اور بجلی اب آتی ہے جاتی نہیں۔ لیکن وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں کہہ ڈالا ہے کہ یہ بحران 2018 تک بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

دراصل حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت سارے سہانے خواب دکھائے تھے جن میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف تو مینار پاکستان کے سائے میں کیمپ آفس تک لگا بیٹھے تھے اور چند ماہ میں بجلی بحران کے خاتمے کے اعلانات کرتے نہیں تھکتے تھے مگر مرکز میں اپنی جماعت کی حکومت آنے کے بعد سے ان کی طرف سے بجلی کے بحران پر معمولی احتجاج تو دور کی بات اس پر لب کشائی بھی نہیں کی جاتی ہے۔

صرف اپنی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ ظاہرکرنے کے لیے فوری فوائد کے منصوبوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ لوگوں کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا توانائی بحران کے حل کے لیے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی خود مختاری کی صورت میں ملک کی 60فیصد آبادی کے حامل صوبہ پنجاب میں آبی ذخائر اور دیگر منصوبے شروع کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ پہلے اربوں روپے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر صرف کر دئیے جائیں۔

کیا یہ عوام اور ملک کے ساتھ مذاق کے مترادف نہیں کہ پنجاب حکومت کی آئندہ حکمت عملی میں دیرپا دورانیہ کے حامل توانائی منصوبوں پر کوئی توجہ مرکوز نہیں۔ نندی پور پاور پراجیکٹ پہلے ہی حکومتی کارکردگی کے لیے تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کے حوالے سے ایسی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں کہ حکومت نے درپردہ بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم کے تعمیر کے منصوبے کو بھی توانائی منصوبوں میں شامل کر رکھا ہے۔

اس ضمن میں حکومت کی ذمہ داری ہے تمام صوبوں کے عوام کو اس منصوبے کی افادیت سے آگاہ کرے۔ ماضی میں بھارت کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لیے مالی معاونت کے ذریعے سازشیں کرتا رہا ہے۔ اس کے ثبوت یقینی طور پر انٹیلی جنس اداروں کے پاس موجود بھی ہوں گے لوگوں کو ان حقائق سے آگاہ کر کے مخالفین کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں رخنہ اندازی سے باز رکھا جا سکتا ہے۔

لیکن جب حکومت ہر سال اپنے بجٹ میں دیا میر بھاشا ڈیم کے لیے رقم مختص کرے، ایشین ڈویلپمنٹ بینک پر اکتفا رکے اور پھر بھی ہر مالی سال کے اختتام پر یہ منصوبہ جوں کا توں رکا رہے تو وہاں کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا کیا حشر کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ ایران کی طرف سے بار بار اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحدی حدود پر گیس پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کیا جا چکا ہے۔

مگر حکومت پاکستان تمام تر اعلانات کے باوجود اپنے حصے کا کام نہیں کر سکی۔ اب عالمی سطح پر سعودی عرب اور ایران کے مابین جس انداز میں کشیدگی شروع ہو چکی ہے اس سے یقینی طور پر اس منصوبے کے بارے میں آئندہ لمبے عرصے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ تاہم وزیراعظم تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے نوید سنانے لگے ہیں۔ مختلف حکومتی ذمہ داران اور وزراء بھی اس منصوبے کو گیس کے بحران کے خاتمے کے لیے اہم ترین منصوبہ قرار دے رہے ہیں لیکن اس منصوبے سے بھی اس وقت تک فوائد حاص نہیں کئے جاسکیں گے جب تک عملی طور پر اقدامات اٹھا کر اس منصوبے کو مکمل نہیں کر لیا جاتا اورگیس کی طلب پوری نہیں کرلی جاتی۔

تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ ہو یا ایران گیس پائپ لائن منصوبہ، وطن عزیز میں ایسے تمام منصوبوں کا مقصد صرف اور صرف گیس کی طلب اور رسد کے درمیان خلا کو ختم کرنا ہے۔ مگر حکومت تاحال اس ضمن میں روم جل رہا ہے اور نیروبانسری بجا رہا ہے کے مصداق رواں دواں ہے ۔وطن عزیز کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی معدنیات سے مالامال کر رکھا ہے۔ خود حکومتی رپورٹس اور متعدد ریسرچ ورکس کے مطابق اندرون سندھ اور بلوچستان میں گیس کے اتنے ذخائر موجود ہیں کہ اگر ان پر کام شروع کر لیاجائے تو ہمیں کسی بھی صبر آزما غیر ملکی گیس معاہدے کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

تمام حکومتی جماعتوں کے اقتدار کا آدھ سے زائد وقت وعدوں کے ساتھ گزر چکا ہے ۔ گیارہ مئی 2013 کے عام انتخابات کی تمام مہم میں سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے طور پر آبی ذخائر اور بجلی وگیس کی پیداوار کے مختلف اور متعدد منصوبے شروع کر کے توانائی کے اعتبار سے خود کفالت کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں قدرتی چشموں ،پہاڑوں سے پگھلنے والی برف اور ندی نالوں کے تمام ذرائع صوبہ خیبر پختوانخواہ میں موجود ہیں جس سے بہت سارے فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں مگر اس سلسلے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔سال 2016 کے آغاز میں ہی توانائی بحران پر ایک مرتبہ پھر احتجاج شروع ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ابھی تک اس کی قلت موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Gas o Bijli Ki Load Shedding is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.