جنرل راحیل شریف کو سلام

ترقی یافتہ اقوام میں فرد کی بجائے اداروں کی فیصلہ کن اہمیت ایک مسلمہ حقیقت سمجھی اور تسلیم کی جاتی ہے جو ایک متعین طریقہ کار کی روشنی میں بروئے کار رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نا صرف وہاں ترقی کی منازل تیزی سے طے ہوتی ہیں بلکہ کسی بھی بحرانی صورت میں اجتماعی قومی دانش کے توسط سے حالات کی سنگینی کا مقابلہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایسے ممالک میں افراد کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا

جمعرات 24 نومبر 2016

General Raheel Sharif Ko Salam
ترقی یافتہ اقوام میں فرد کی بجائے اداروں کی فیصلہ کن اہمیت ایک مسلمہ حقیقت سمجھی اور تسلیم کی جاتی ہے جو ایک متعین طریقہ کار کی روشنی میں بروئے کار رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نا صرف وہاں ترقی کی منازل تیزی سے طے ہوتی ہیں بلکہ کسی بھی بحرانی صورت میں اجتماعی قومی دانش کے توسط سے حالات کی سنگینی کا مقابلہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایسے ممالک میں افراد کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ تمام وسائل ادارہ جاتی نظام کو مستحکم کر نے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔

تا ہم پاکستان جیسے ایک کڑوی قومی تاریخ رکھنے والے ملک کے لیے اداروں کی بجائے ہمیشہ افراد کی ہی اہمیت رہی ہے کیونکہ پاکستانی قوم گزشتہ سات عشروں سے کسی ایسے رہبر و رہنما کی تلاش میں سرگرداں رہی ہے جو بیچ منجھدار ہچکولے کھاتی ہماری قومی ناوٴکو ساحل سمندر سے آشنا کر سکے۔

(جاری ہے)

جنرل راحیل شریف کے حوالے سے بھی پاکستانی قوم کی یہی سوچ کارفرما رہی ہے جس کی بنیادی وجہ وہ قیامت خیز حالات ہیں جن میں جنرل راحیل کی تعیناتی کے وقت قوم سانس لے رہی تھی پورے ملک پر دہشت گردوں کا عملی طور پر قبضہ تھا جرائم پیشہ گروہ دندناتے پھر رہے تھے انتہا پسندی کی لہر نے معاشرے کی شہ رگ پکڑ رکھی تھی۔

خوف ،دہشت اور مر نے مارنے کے رویے پورے سماج میں سرایت کر چکے تھے آئین و قانون مذاق بن کر رہ گئے تھے ہمہ وقت کے دہشت گردی کے حملو ں نے پورے ملک کو نفسیاتی مریض بنا رکھا تھا۔ قبائلی علاقوں میں عملی طور پر دہشت گردوں کا قبضہ تھا پاکستا ن کی اقتصادی حب کا عنوان رکھنے والے کراچی میں موت کا رقص جاری تھا جبکہ عالمی سازشوں کے نتیجے میں بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں نے لوگوں کا جینا دو بھر کردیا تھا ۔

داخلی سطح پر نظر آنے والی اس تاریک تصویر کے علاوہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لیے ہر طرف سے دباوٴ کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے تھے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر دہشت گردوں کے قبضے کے امکانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ تا کہ پاکستان دشمن قوتوں کے دلوں میں شروع دن سے ہی کھٹکنے والے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو لپیٹا جا سکے پولیس ،ایف سی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے دامن سے وابستہ افراد اور دفاتر کو ریاست کے باغیوں کا سامنا تھا جو ہمہ وقت ان کی جان کے در پے رہتے تھے۔


ان حالات میں سانس لینے والی پاکستانی قوم یقینا اپنے مستقبل کے حوالے سے لا امید اور بے یقینی کا شکار تھی تا ہم جنرل راحیل شریف کی تعیناتی اور جلد ہی ان کی طرف سے اٹھائے جا نے والے بعض فوری اقدامات کے باعث قوم نے امید کی انگڑائی لی۔ ضرب عضب کے نا م سے افواج پاکستان کی طرف سے شروع کی گئی جنگ نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ بیشتر انتہا پسند مارے گئے جبکہ بچ جانے والے باغیوں نے افغانستان کا رخ کیا جہاں سے وہ آج بھی گاہے بگاہے خود کش دھماکوں کے ذریعے پاکستان دشمنی پر مشتمل اپنی نفرت کی آگ بجھاتے رہتے ہیں۔

دریں اثناء پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں نے اپنے لہو تازہ سے پوری قوم ،سیاسی قیادت اور افواج پاکستان کو یکجا کر دیااور قومی اجتماعی دانش کو بروئے کا ر لاتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک ایسی قومی دستاویز تیار کی گئی جو 1973ء کے بعد دوسری متفقہ دستاویز قرار دی جا سکتی ہے۔ جس پر پاکستان بھر کے لوگوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا تا ہم یہ علیحدہ بات ہے کہ گزرتے وقت نے اس دستاویز کوبھی زنگ آلود کر دیا ہے کیونکہ اس میں فو ج کے ذمہ لگائی جانے والے بیشتر فیصلوں پر تو عملدرآمد کیا گیا ہے تا ہم بد قسمتی سے حکومت اور بر سر اقتدار طبقات نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی ہے۔

حتیٰ کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وزارت داخلہ کے تحت قائم کیے جانے والے نیکٹا جیسے ادارے کو آج تک فعال نہیں کیا جا سکا کیونکہ اس کے لیے حکومت نے فنڈز ہی مہیا نہیں کیے اسی طرح مدارس میں تجویز کی گئی اصلاحات بھی عملی شکل اختیار نہیں کر سکیں جبکہ ممنوعہ مذہبی جماعتیں بھی نام بدل بدل کر آج تک ملک میں مصروف عمل ہیں۔ جنہیں رو کنے ٹوکنے کے لیے کوئی بھی ادارہ سامنے نہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے نتائج سے وابستہ بیشتر قومی امیدیں دم توڑ رہی ہیں ۔

تا ہم لگتا ہے کہ حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر وقت گزارنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ایک طرف افواج پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے اس ادارے کی اجتماعی کارکردگی کو بہتر بنایا جبکہ دوسری طرف اپنی فعال شخصیت اور ذاتی محاسن کی بنیاد پر تیزی سے فیصلے کر نے اور ان پر عملدرآمد کر نے کی روایت کو مستحکم کیا ۔

اس کے علاوہ خارجہ محاذ پر بھی حکومت کے لیے سہولت اور ملک کے لیے نیک نامی کمائی ایک عرصے سے معطل چلے آنے والے پاک امریکہ تعلقات کو کسی حد تک بحال کیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے چینی حکام کو لا حق خدشات دور کر نے کے لیے بحیثیت ایک ادارہ افواج پاکستان کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا ۔سعودی عرب اور ایران کے مابین یمن کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کے تناظر میں ملک کے بہترین مفاد میں حکومت وقت کی مددکی اور پاکستان کی غیر جانبداری کے ذریعے ہمیں دوسروں کی ایک نئی جنگ میں کودنے سے بچا لیا بھارت کے حوالے سے جنرل راحیل شریف نے ہمیشہ پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی مقبوضہ کشمیر میں جاری انتفادہ کے حوالے سے اس جینون سولجر کے خیالات سے پورا عالم آگاہ ہے۔

ضرب عضب کے نتیجے میں اندرون ملک بے گھر ہو نے والے افراد کی بحالی کے لیے جنرل راحیل کی کوششیں قومی امنگوں کی حقیقی ترجمان رہی ہیں مختلف محاذوں پر بر سر پیکار فوجی جوانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے جنرل راحیل شریف نے اپنے شب و روز وقف رکھے۔ حتیٰ کہ اپنی والدہ ماجدہ کی وفات کے اگلے روز بھی وہ فاٹا میں جوانوں کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھے کسی بھی ناگہانی صورت اور خود کش حملے کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے جنرل راحیل شریف ہی رہے ہیں جس کے باعث قوم میں حوصلہ اور امید پیدا ہو تی رہی ہے۔

بلا شبہ وہ پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول اور موثر فو جی سر براہ تسلیم کیے جاتے ہیں جنہیں پوری قوم قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی بھی خواہشمند رہی ہے تا ہم یہ کریڈٹ بھی جنرل راحیل ہی کو جاتا ہے کہ بر سر اقتدار سیاسی حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے یا اسے عدم استحکام سے دوچار کر نے کی بجائے انہوں نے ہمیشہ حکومت کے لیے آسانیاں ہی پیدا کی ہیں۔

جس سے ان کی جمہوریت پسندی کے رویے جھلکتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ماضی کی ہماری قومی روایات کے بر عکس توسیع نا لیکر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی ذات سے بالا تر ہو کر اداروں کے استحکام اور پاکستان کی بھلائی میں یقین رکھتے ہیں اور یہی وہ صفت ہے جو انہیں قوم کی نظر میں ایک ایسے پاکستانی فر زند کا مقام عطا کرتی ہے ۔جن کا خاندان سب سے زیادہ نشان حید ر لینے کا اعزاز رکھتا ہے اور اس امتیاز کو قائم رکھ کر جنرل راحیل نے ایک نئی تا ریخ رقم کی ہے جسے تا دیر پاکستانی قوم اپنی آنکھوں میں سمو کر رکھے گی کیونکہ آج جب وہ اپنی قومی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔

تو وہ ایسا پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں خوف کی بجائے ایک نئی امید انگڑائی لے رہی ہے جس پر انہیں پوری قوم کی طرح میری طرف سے بھی سلام !

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

General Raheel Sharif Ko Salam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.