غربت مکاؤ فنڈز

اعلیٰ عہدیداروں نے اپنی غربت ” مکا“ لی

جمعہ 20 مئی 2016

Ghurbat Mukao Funds
ویسے تو ہم کرپشن کے خاتمے کے نعرے لگاتے ہیں۔ ملک بھر میں غربت ختم کرنے کے متعدد منصوبے نظر آتے ہیں۔ غیر ملکی اداروں سے لے کر ملکی ادارے اور عام شہری بڑی تعداد میں غریبوں کی مدد کیلئے رقم فراہم کرتے ہیں۔ سرکاری اور نجی سطح پر بھی کئی ادارے کام کررہے ہیں۔ مائیکروفنانس کے منصوبے بھی ”عروج“ پر ہیں۔ اب ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ انسانیت کی خدمت اور غربت مکاؤ سکیموں کے تحت خلق خدا کی دعائیں لینے والے بھی ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے۔

دیگر الفاظ میں خدا کے نام پر بھی کرپشن ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں بظاہر خدا کے لئے کام کرنے والے بھی ہیرا پھیری کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق وفاتی حکومت کے ادارے پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈز کے تحت بلاسود قرض سکیم کے چیئرمین کی جانبس ے اپنی این جی او کو سب سے زیادہ فنڈز جاری کئے جانے کا انکشاف ہواہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ادارے کے چیف ایگزیکٹوآفیسر نے غریب افراد کی قسمت بدلنے کی بجائے اپنے قریبی دوستوں کی غربت ختم کرنے کاارادہ کرلیا۔

رپورٹ میں سرکاری دستاویز کے حوالے سے بتایاگیاہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے پروگرام برائے قرض حسنہ سکیم کے لئے این جی او ’ اخوت“ کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کو چیئرمین مقرر کرکے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیاگیا۔ اس وقت اس فیصلے کو سراہا بھی کیا کیونکہ اس میں دورائے نہیں کہ ”ا خوت“ اور اس کے چیئرمین میڈیا پر نیک نامی کماچلے تھے اور انہیں مائیکرو فنانس کاماہر تصور کیا جانے لگا تھا۔

بہرحال اس قرض حسنہ سکیم کے تحت سرکار نے دوسال میں مختلف این جی اوزکے ذریعے 3ارب سے زائد کے فنڈز جاری کئے۔ اب معلوم ہوا کہ چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس رقم میں سے اپنی این جی او ” اخوت“ کو سب سے زیادہ فنڈز جاری کر دیئے۔ ” اخوت“ کو جاری ہونے والی رقم 47کروڑ 16لاکھ 10ہزار روپے بتائی گئی ہے۔ اس صورت حال میں پی پی اے ایف کے چیف ایگزیکٹو آفیسر قاضی عظمت عیسی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

انہوں نے ورلڈ بنک میں ملازمت کرنے والے اپنے دوست عامر درانی کو بطور کنسلٹنٹ رکھ لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کنسلٹنٹ کو یومیہ 70 ہزار دئیے جاتے ہیں۔ اس بات پر بھی حیرت کااظہار کیاجارہاہے کہ جس فنڈز سے غریبوں کو چند ہزار فراہم کرکے چھوٹا سا روزگار فراہم کرنا تھا اس سے 70ہزار روپے روزانہ کی بنیاد پر ” مشیر“ رکھے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی پاورٹی اپنی ویشن فنڈ کے ذرائع کاکہنا ہے کہ تمام کام حکومت کی پالیسی اور قانون کے مطابق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جتنی رقم محض ایک ” مشیر“ کو دی جارہی ہے کیا اس رقم سے مزید کئی گھرانوں کو روز گار نہیں مل سکتا تھا۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ چیئرمین کااپنی ہی این جی او کو سب سے زیادہ رقم فراہم کرنا کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا باقی اداروں کم رقم دینا ان کے پراجیکٹس کی رفتار کم کرنے کی کوشش تو نہیں؟ سوال تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ کہیں اس سارے عمل کامقصد باقی این جی اوز کے مقابلے میں اپنی این جی او کو نمایاں رکھنے کی کوشش تو نہیں تھی؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ” قوانین اور استحقاق“ کے نام پر ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو ہیرا پھیری کے زمرے میں آتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اب غریبوں کی مدد کے اعلانات پر بھی لاکھوں روپے کے پروگرامز کا انعقاد ہونے لگا ہے۔ یہ دکھاوے کی نیکیاں جانے کس سمت لیجارہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ghurbat Mukao Funds is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.