ہسپتالوں کا فضلہ خطرہ بن گیا

26اضلاع کیلئے کروڑوں کے منصوبے برباد ہوگئے

منگل 19 اپریل 2016

Haspatalon Ka Fuzla Khatra Ban Gaya
یہ بات واضح ہے کہ ہسپتالوں کافضلہ اور ضائع شدہ اشیاء کے سلسلے میں خاص احتیاط ضروری ہے۔ عام کچرے کو تو مخصوص انداز میں ضائع کردیتے ہیں لیکن ہسپتالوں کا فضلہ نہ توجلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں لاپروائی سے پھینکا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فضلے سے کئی بیماریوں پھیل سکتی ہیں۔ اسے مخصوص انداز میں تلف کردیاجاتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بنایاجاتا ہے کہ ہسپتال کی استعمال شدہ اشیاء کو دوبارہ استعمال نہ کیاجائے۔

ہماری سرکارنے ہسپتالوں کے فضلے کو ضائع کرنے کیلئے جدید بنیادوں پر ایک منصوبہ ترتیب دیاتھا جس پر عمل بھی شروع کردیا گیا۔ یادرہے کہ محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے ہسپتالوں کے فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز سے 26 اضلاع میں انسٹی نیٹرز لگائے گئے تھے۔

(جاری ہے)

اسی طرح پنجاب حکومت کی جانب سے ہسپتالوں کے فضلے آٹوکلیو کے ذریعے ضائع کرنے کا منصوبہ بھی سامنے آیاتھا۔

اب ایک رپورٹ کے مطابق 26اضلاع میں نصب کئے گئے انسٹی نیٹرز غیر فعال پڑے ہیں اور فضلے کو آٹوکلیو کے ذریعے تلف کرنے کا منصوبہ بھی ٹھپ ہوچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وفاتی حکومت کے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کی جانب سے ہسپتالوں کے فضلے کوتلف کرنے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز سے 19انسٹی نیٹرز خریدے گئے جو محکمہ صحت پنجاب کوفراہم کردئیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ محکمہ صحت پنجاب نے بذات خود بھی کروڑوں کے فنڈز سے 7انسٹی نیٹرز خریدے تھے۔ دوسری جانب یہ 26 انسٹی نیٹرز تاحال غیر فعال پڑے ہیں اور قومی خزانے کے کروڑوں روپے ضائع ہورہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے ان انسٹی نیٹرز کے ذریعے ہسپتالوں کے فضلے کوجلانے سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ کینسر اور دیگر بیماریوں کا بھی موجب بنتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری فائلوں میں انتہائی شاندار منصوبے نظر آتے ہیں۔ا سی طرح سرکاری محکمے اربوں کے چیک بھی کاٹتے ہیں۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں بھی ہمیں اربوں روپے سے شروع کردہ پراجیکٹس کی بھرمار نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام شہریوں کو بمشکل ہی ان سے فائدہ پہنچ پاتا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں واقتی اوت کم مدتی منصوبوں پرزور دیاجاتا ہے۔

ہمارے ”ا علیٰ دماغ“ جدید مشنری تو منگوالیتے ہیں لیکن اس مشنری کو استعمال کرنے والے ماہرین تیارکرنے پرزور نہیں دیتے۔ عام طور پر نااہل اور کم تجریہ کارافراد جدید مشنریز کو چلانے کو شش کرتے ہیں جن کو نہ توفنی خرابی علم ہوپاتا ہے اور نہ ہی وہ مشنری کادرست استعمال کرپاتے ہیں۔ سرکاری فائلوں میں تو سب اچھانظر آتا ہے لیکن زمینی حائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نجی ہسپتالوں کی مشنری تو بہتر نظر آتی ہے لیکن وہی مشنری سرکاری ہسپتال میں اکثر خراب یابندہی ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہسپتالوں کے فضلے کوتلف کرنے والی انسٹی نیٹرز کو غیر فعال ہی رکھنا تھا تو پھر اس مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت کیا ۔ اسی طرح اگر انہیں استعمال کرنے والے عملے کی کمی ہے تو پھر مشنری منگوانے سے قبل اس کی دیکھ بھال کیلئے تکنیکی عملہ کیوں تیار نہیں کیاجاتا؟ بدقسمتی سے سرکار بھاری فنڈز اور منصوبوں کو نظرا نداز کردیتی ہے۔ اسے وقت متعدد سرکاری منصوبوں کے تحت منگوائی جانے والی ایسی مشنری یاتو غیر فعال ہے یاپھر خراب پڑی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Haspatalon Ka Fuzla Khatra Ban Gaya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.