ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن

اربوں کے قرضے لے کرغائب ہونیوالوں کوکوئی نہ روک سکا ہمارے ہاں اب صورتحال اس نہج پرپہنچ چکی ہے۔ کہ قانونی طریقہ کاراختیار کرتے ہوئے قومی خزانے اور بنکوں کولوٹاجاتاہے۔

ہفتہ 30 جنوری 2016

House Building Finance Corporation
شاہ جی:
ہمارے ہاں اب صورتحال اس نہج پرپہنچ چکی ہے۔ کہ قانونی طریقہ کاراختیار کرتے ہوئے قومی خزانے اور بنکوں کولوٹاجاتاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی وارداتوں کاطریقہ وہی لوگ بتاتے ہیں جنہیں اندرونی خامیوں کاعلم ہوا۔ ایسے ” معصوم“ افراد واردات کے بعد بھی اپنے عہدوں پرقائم رہتے ہیں۔ البتہ انہیں ان کا” حصہ“ ضرور ملتارہتاہے۔

ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ وزارت خزانہ کے ذیلی اداروں اور بنکوں سے نجی کمپنیوں کی جانب سے صنعتوں کیلئے اربوں روپے قرض لئے گئے اور پھر قرض لینے والوں کاکچھ پتہ نہیں چلا۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ یہ اعتراف کی چکی ہے کہ نجی کمپنی کی جانب سے کروڑوں روپے قرض لیاگیا‘ لیکن اب ان کے ڈائریکٹرز گائب ہیں۔

(جاری ہے)

ایکوٹی پارٹیسپیشن فنڈنے میسرز عاشی ماربل کمپنی اور میسرز پنجاب ان ٹرے کو80کی دہائی میں کروڑوں روپے کاقرضہ دیاجس کی صرف 3کوڑ 90لاکھ روپے ریکوری ہوئی۔

وزارت خزانہ کے مطابق اب دائریکٹرزہی غائب ہیں جنہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے 2003ء میں پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی اور پاکستان سٹیل مل کوسوارب روپے دیئے۔ فنانس حکام کے مطابق پی ایچ اے سے 21کروڑ 80لاکھ اور سٹیل مل سے 13کروڑ 30لاکھ روپے ریکوری ابھی بھی رہتی ہے۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 2001ء میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن میں فراڈکے 256کیسز سامنے آئے جن کی مدمیں 24کروڑ روپے ریکور نہ ہوسکے۔

یہ فراڈضلعی دفاتر اور ہیڈآفسز میں جعلی دستاویزپر لاکھوں روپے تقسیم کرنے کے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈسٹرئیل کارپوریشن بنک آف پاکستان کے معاملات بھی ایسے ہی ہیں۔ میسرز خیبربرکس نے 1995ء میں مذکورہ بنک سے 8کروڑ روپے قرض لیا تھا اور معاملہ عدالت میں جانے پر صرف13ملین روپے کی ریکوری ہوسکی۔ یہ کمپنی بھی فرار ہوگئی۔ سرکاری فائلوں میں جھانکیں توایسی لاتعداد کہانیاں ملتی ہیں۔

ہمارے ہاں اعلیٰ عہدوں پرفائز کالی بھڑیں ہی ایسی وائٹ کالرکرپشن کے راستے بناتی ہیں۔ بنکوں اور ادروں سے اربوں روپے قرضہ لینے والے آسانی سے غائب ہوجاتے ہیں‘ لیکن ان کے خلاف کارروائی تک نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیاملی بھگت کے بناایسا ممکن ہے؟ سوال تویہ بھی ہے کہ کیااہم افراد کوکوئی چیز گروی رکھوائے بناقرض سے نواز دیا جاتاہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ کیاایسے قرضوں میں” ضمانت“ کی قیمت قرض کی رقم سے کم ہوتی ہے؟ جس طرح نجی کمپنیوں کی اربوں روپے لیکر گائب ہونے کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں‘ اس سے کئی سوال اٹھتے ہیں۔

قومی خزانے کوپہچایاجانے والایہ نقصان کس کے کھاتے میں جائے گا۔ اس کا جواب دینے پرشاید کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر ایسی کمپنیوں کوکیوں نہیں پکڑا جاتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیاہمارانظام اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اب کوئی بھی شخص کمپنی بناکرقرض حاصل کرے اور پھرراتوں رات اس کمپنی کے سبھی ڈائریکٹرز بھاگ جائیں تو انہیں گرفتار تک نہیں کیاجاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

House Building Finance Corporation is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.