مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح

قومی سیاسی تاریخ کی ایسی تابندہ شخصیتوں میں حضرت قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ کا نام بھی شامل ہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کرشماتی شخصیت نے ایک ایسے دورآمریت میں عوام کو بیانگ دہل ایسی جمہوریت کے احیاء و بقاء کی خاطر سرگرم عمل کر دیا

جمعہ 10 جولائی 2015

Madr e Millat Fatima Jinnah
خالد کا شمیری:
پاکستان میں جمہوریت کے قیام‘ جمہوری اقدار کی احیاء اور بقاء کیلئے خارزارِ سیاست میں آبلہ پا جن عظیم ہستیوں نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے رکھیں اور مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں جرأتوں کے چراغ جلا کر سہمے ہوئے عوام کو اذنِ کلام دیا۔ اسی مایہ نازجلیل القدر شخصیتوں سے پاکستان کا چمنستان سیاست کبھی اور آمروں کے کسی دور میں بھی تہی دامن نہیں رہا۔

قومی سیاسی تاریخ کی ایسی تابندہ شخصیتوں میں حضرت قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ کا نام بھی شامل ہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کرشماتی شخصیت نے ایک ایسے دورآمریت میں عوام کو بیانگ دہل ایسی جمہوریت کے احیاء و بقاء کی خاطر سرگرم عمل کر دیا جس جمہوریت کا خواب ان کے عظیم بھائی بانی پاکستان قائداعظم نے دیکھا تھا۔

(جاری ہے)

یہ مادر ملت ہی کی شخصیت کا اعجاز ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں ایوب خان کی شخصی آمریت کے خلاف جب دشت صحافت میں قدم رکھا تو آمریت کے در بام لرز اٹھے تھے۔

اخبارات پابندیوں کی زد میں تھے۔ بڑے بڑے سیاسی زعما منقاد زیر پر تھے۔ عوام کے محسنوں کی بات کرنے والے ڈھونڈے سے بھی کم کم ہی ملتے تھے۔ میدان سیاست میں حق وصداقت کا علم بلند کرنے والے پابند سلاسل تھے۔ ایسے ماحول میں آمریت کا گن گانے اور آمر کی پالیسیوں پر راہ درہ کرنے والوں کی چاندی تھی۔ ملک میں ہر طرف سناٹے کا عالم تھا۔ اجتماعات حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سمٹ کرستر بہتر نشستوں والے ہال نما کمروں تک سمٹ چکے تھے۔

ایسے حالات میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے صدارتی انتخاب کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ حکومتی دیواروں اور حاشیہ نشینوں کو یقین کی حد تک گمان تھا کہ کہ ایوب خان نے ملک میں جبر و قہر کی جو فضا طاری کر رکھی ہے‘ اس ملک کا کوئی سیاست بھی ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی جرأت نہیں کر سکے گا مگر اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی درخواست پر جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا تو اس خبر سے اقتدار کے ایوانوں میں گویا بھونچال آگیا۔


تاریخ اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ پاکستان میں ایوب خان کے رائج کردہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت ہونے والے صدارتی انتخاب کے دوران 20 ستمبر 1964ء انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز متحدہ حزب اختلاف کے زیراہتمام پٹیل پارک کراچی میں پہلا ایسا عظیم الشان جلسہ عام ہوا جس میں اپوزیشن کی صدارتی امیدوار کے طورپر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی صدارتی مہم کی پہلی تقریرکی۔

کراچی میں قریباً آٹھ برسوں بعد وہ جلسہ عام ہوا تھا۔ جلسے کے دنوں کراچی کی صورتحال یوں تھی کہ جیسے کراچی کی ہر سڑک پٹیل پارک کی طرف جا رہی ہے۔ یہ دور آمریت میں ایک انقلاب تھا۔ ایک ایسی تبد یلی تھی جس کا رونما ہونا صرف اور صرف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جرأتمند شخصیت کی بدولت تھی۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس جلسے کی خبر کو جس قومی اخبار نے تفصیل کے ساتھ نمایاں طورپر شائع کیا‘ وہ روزنامہ نوائے وقت تھا جس کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے جلسہ کی تقریر کو تفصیل کے ساتھ اخبار کی زینت بنانے کی ہدایت کر رکھی تھی۔

اس تقریر میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کہا تھ کہ ”میں جمہوریت بحال کرانے کیلئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہی ہوں کیونکہ عوام کے سیاسی حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا تو بانی پاکستان قائداعظم نے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی‘ عوام کو آزادی حاصل ہوگی‘ عوام اپنی مرضی سے نمائند منتخب کریں گے‘ حکومت عوام کی ہوگی جو عوام کیلئے کام کرے گی مگرآج جمہوری اداروں اور جمہوری آئین کو پاؤں تلے مسل دیا گیا ہے۔

عوام کے حقوق اور تحریروتقریر کی آزادی سلب کر دی ہے۔ عوام اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔“
ان دنوں ملک میں بیشتر اردو اور انگریزی کے اخبارات ایوب خان کے قائم کردہ سرکاری ادارہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے کنٹرول میں تھے۔ باقی کے بڑے اخبارات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ان میں بھی اکثر حکومتی پالیسیوں کے حامی تھے۔

ملک بھر میں صرف روزنامہ نوائے وقت ہی ایسا اخبار تھا جو ڈاکٹر مجید نظامی کی زیرادارت عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے مکمل طور پر آزاد صحافت کا پرچم بردار تھا۔ اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر مجید نظامی کی بانی پاکستان اور ان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ سے دلی عقیدت اور ان کی بے لوث سیاسی خدمات سے والہانہ لگاؤ تھا۔ اس زمانہ کے اخبارات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ڈاکٹر مجید نظامی کی زیرادارت روزنامہ نوائے وقت ملک میں جمہوریت کی بحالی اور ملک کو آمریت سے نجات دلانے کے حوالے سے مادر ملت محترمہ فاطمہ کی جدوجہد کو عام کرنے کے لئے اپنے اس کردار کو دہرا رہا ہے۔

جو اس اخبار نے تحریک پاکستان کے دوران حضرت قائداعظم کے سیاسی نظریات کو عام کرنے کے لئے ادا کیا تھا۔
4 اکتوبر 1964ء کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 4 اکتوبر 1964ء کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی سے لاہور تشریف لائیں۔ اسی روز مادر ملت کے لاہور کی تاریخ سب سے بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ یہ جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ میں ہوا تھا۔ مادر ملت کا قیام تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما، سابق سفیر متعینہ ترکی میاں بشیر احمد بار ایٹ لاء کی اقامت گاہ ”المنظر“ واقع لارنس روڈ لاہور میں تھا۔

اسی جگہ صبح کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ڈاکٹر مجید نظامی نے بطور خاص ملاقات کی۔ میاں بشیر احمد کے فرزند ارجمند میاں منظر بشیر کے ذریعے مادر ملت نے ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ملاقات قریباً پون گھنٹہ تک رہی مادر ملت نے اس ملاقات میں ڈاکٹر مجید نظامی کے اخبار کی آزاد پالیسی کی بیحد تعریف کی اور مجید نظامی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دو میں آپ بڑی جرات اور دلیری سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔

مجید نظامی نے انتہائی نیاز مندی کے لہجے میں جواب دیا تھا کہ نوائے وقت تو بانی پاکستان حضرت قائدا عظم کے نظریات کو عام کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ آپ انہی نظریات کو احیاء اور بقا کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ نوائے وقت اس سلسلے میں خطرات کی پروا کئے بغیر اپنی ڈگر پر چلتا رہے گا۔ اسی ملاقات کے دوران میں محترمہ فاطمہ جناح نے (ڈاکٹر) مجید نظامی نے ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے پوچھا ”لوگ کیا سوچتے ہیں؟ مجید نظامی نے نے کہا کہ اگر انتخاب آزادانہ ہوا تو ایوب کسی بھی صورت جیت نہیں سکتے۔

چند لمحے توقف کے بعد جناب مجید نظامی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ا پنے اخبار کی طرف سے بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور نیاز مندانہ انداز میں کہا کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ نوائے وقت بنیادی طور پر مسلم لیگی ہے۔ حضرت قائداعظم نے حکم پر اسے روزنامہ کہاگیا تھا۔ اخبار کے بانی میرے برادر اکبر حمید نظامی مرحوم کے بانی تھے۔

وہ حضرت قائداعظم کے سپاہی تھے۔
یہ مادر ملت فاطمہ جناح کے میدان سیاست میں ورود مسعود ہی کا کرشمہ ہے کہ اسلامی ممالک میں خاتون کے سربراہ مملکت بننے کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گا اور اس حوالے سے قرآن و سنت سے پوری طرح بہرہ ور علماء کرام کے فیصلے کو عوام کے دلوں میں راسخ کرنے کے لئے مناسب (ڈاکٹر) مجید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت نے تاریخی کردار ادا کیا۔


امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت کے تنخواہ دار اور نظریہ پاکستان کے مخالفین مولوی حضرات نے ایوب خان کی خوشنودی کے لئے اس پروپیگنڈے کو ہوا دی کہ شریعت کے مطابق عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی۔ چنانچہ 11 اکتوبر 1964ء کو امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے چیلنج کیا کہ کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ شریعت میں عورت کا سربراہ مملکت ہونا حرام ہے ،مولانانے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ جب ملکہ سبا، حضرت سلیما ن رضی اللہ عنہ ایمان لے آئیں تو حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی کہ عورت کو سربراہ مملکت نہیں رہنا چاہئے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کے سربراہ مملکت ہونے پر کوئی حرج نہیں پھر یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عورت کی سربراہی میں جہاد کرنا یا حج کرنا جائز نہیں۔ “
مولانا سید مودودی کا یہ تاریخ ساز بیان نوائے وقت میں سبھی اخبارات سے نمایاں طور پرشائع ہوا اور اس بیان کی اشاعت نے نہ صرف مادر ملت کی انتخابی مہم کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کر دیا بلکہ اسلامی دنیا میں عورت کے سربراہ مملکت بننے کا راستہ صاف ہو گیا۔

یہی وہ نکتہ آغاز تھا جو بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹوکے وزیراعظم بننے پر منتج ہوا اور اگرچہ صدارتی انتخاب میں دھاندلی، دھونس اور دھن بدولت ظلم نے مکر و فریب سے جیت حاصل کر لی۔ مگر اس مرحلے میں بھی روزنامہ نوائے وقت نے یہ سرخی جما کر ایوب خان کے حاشیہ نشیوں کو تلملا کر رکھ دیا۔”الیکشن کمیشن نے ایوب خان کو کامیاب قرار دے دیا۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے دل میں مجید نظامی اور ان کے اخبار نوائے وقت کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ صدارتی انتخاب کے بعد انہوں نے مجید نظامی کو کراچی میں واقعہ اپنی اقامت گاہ موہٹہ پیلس میں ناشتہ پر بلایا!ڈاکٹر مجید نظامی خود کہا کرتے تھے کہ محترمہ فاطمہ جناح کا انہیں بلانا ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Madr e Millat Fatima Jinnah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.