مسئلہ کشمیر اور تاریخ کشمیر

مسئلہ کشمیر انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے قبضے سے نجات دلا کر دم لے۔کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا

جمعہ 7 اکتوبر 2016

Masla Kashmir Or Tareekh e Kashmir
طیبہ ضیاء چیمہ:
مسئلہ کشمیر انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے قبضے سے نجات دلا کر دم لے۔کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا۔

کشمیریوں نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ جنت نظیر وادی ایک فوجی کیمپ خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں، میووں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت و بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتا تھا مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاو گھیراوٴ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے۔

تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ بے انتہا جانی و مالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔ تنازع کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس تنازع کو حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ اور پھر دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب کشمیر ہی بنے گا۔

کشمیریوں کی جرات و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔

یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا مگر آہستہ آہستہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10 کروڑ سال گزر چکے ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں نظر آتی ہیں۔

آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947ء کو قائم ہوئی۔ ریاست جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی۔ کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز 16 مارچ 1846 کو میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی، مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔

مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف 1931 تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان سر نہ اٹھا سکے۔
ہم جب ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924 تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔

یہ خاموشی 1924 میں اس وقت ٹوٹی جب سرینگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز میں آواز ملائی اور یوں پوری ریاست سراپا احتجاج بن گئی، اس تحریک کو بھی ڈوگروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی، وقتی طور پر یہ تحریک کمزور ضرور ہوئی مگر اس کے بعد ریاست کے عوام میں بیداری آئی اور آزادی کا جذبہ توانا ہوا۔

۔ ڈوگرہ حاکم کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیری حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سرینگر کی طرف رخ کیا اور سرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔


26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے لیے موقع کی تلاش میں تھا لہٰذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہوگئیں، دوسری طرف پاکستان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مجاہدین کو آزاد کیا ہوا ایک بڑا علاقہ بھی خالی کرنا پڑا اور مجبوراً پسپائی اختیار کرنا پڑی، بھارت کشمیر میں اس وعدے کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ امن کے قیام کے بعد کشمیر سے واپس چلا جائیگا مگر آج تک بھارت کی واپسی نہیں ہوئی۔

دوسری طرف جب سرینگر میں بھارتی قبضہ ہوا اور آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو یکم نومبر 1947 کو گلگت میں بھی بغاوت ہوئی۔ ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ جاری رہی۔ 16 نومبر 1947 کو پاکستان نے اس پر کنٹرول کیا انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی مگر ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا۔ جب سے اب تک تنازع کشمیر پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Masla Kashmir Or Tareekh e Kashmir is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.