معاشی و ترقی و خوشحالی میں تاجروں کا کردار

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاجر و صنعتکار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملکی آمدن کا 90 فیصد سے زائد حصہ تاجروں سے ہی ٹیکسوں کی صورت میں وصول ہوتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔

جمعرات 17 دسمبر 2015

Muashi o Taraqqi o Khushkhali Main Tajiron Ka Kirdar
ناصر سعید:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاجر و صنعتکار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملکی آمدن کا 90 فیصد سے زائد حصہ تاجروں سے ہی ٹیکسوں کی صورت میں وصول ہوتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ تاجر برادری ہمیشہ نامساعد حالات کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ اب صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے لیکن تاحال بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

لاہور میں برانڈرتھ روڈ، بیڈن روڈ، منٹگمری روڈ، فوٹو گڈز مارکیٹ، چیمبرلین روڈ، انارکلی، اردو بازار، شاہ عالم مارکیٹ، اچھرہ ، نیلا گنبد، بادامی باغ، اعظم کلاتھ مارکیٹ، رنگ محل، اکبر منڈی، مال روڈ اور ہال روڈ سمیت درجنوں مارکیٹیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر برانڈرتھ روڈ مارکیٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ مارکیٹ کچھ دنوں کے لیے بند ہو جائے تو ملک کے اکثر صنعتی یونٹس کا پہیہ جام ہو کر رہ جائے گا کیونکہ یہ ملک بھر میں صنعتی مشینری کے پرزہ جات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

برقی مصنوعات کے سلسلے میں ہال روڈ پورے ملک میں ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شاہ عالم مارکیٹ ، جو چھوٹی بڑی درجنوں مارکیٹوں کا مجموعہ ہے ، اگر پورے ایشیاء میں نہیں تو کم از کم سارک میں شامل ممالک میں سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ جنرل مرچنٹ اور دیگر بنیادی استعمال کی اشیاء کی اس قدر بڑی مارکیٹ اور کہیں واقع نہیں ہے جو یقیناً اعزاز کی بات ہے۔

یہ مارکیٹیں صنعت کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت بھی رکھتی ہیں کیونکہ یہاں سے مال نہ صرف ملک بھر بلکہ بیرون ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے مگر اِن مارکیٹوں میں کاروبار کرنے والے تاجروں کو مراعات تو ایک طرف بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں۔ تاجر ٹیکس کی ادائیگی کی شکل میں اپنا قومی فریضہ باقاعدگی سے ادا کرنے کے باوجود مشکلات سے دوچار ہیں۔

تاجر بھائیوں سے ملاقات کے لیے مجھے مختلف مارکیٹوں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے اور یہ دیکھ کر بہت پریشانی ہوتی ہے کہ تمام مارکیٹوں میں ایک افراتفری کی سی صورتحال ہے۔ ناجائز تجاوزات کی بھرمار، کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی، امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، بجلی اور ٹیلیفون کے انتہائی ناقص نظام اور ٹیکس وصول کرنے والے اہلکاروں نے تاجروں کا جینا حرام کررکھا ہے۔

تاجر بھائی ملتے ہی سب سے پہلے یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی مارکیٹ میں ٹریفک گھنٹوں جام رہنا معمول بن چکا ہے جس کی بڑی وجہ ناجائز تجاوزات ہیں۔ ریڑھیوں اورچھابوں والے آدھی آدھی سڑک بلاک کیے ہوئے ہیں۔ مارکیٹوں میں کئی گھنٹے پھنسی رہنے والی ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں تاجروں کی حالتِ زار کی منہ بولتی تصویر ہیں جبکہ بالخصوص برانڈرتھ روڈ اور شاہ عالم مارکیٹ میں تو پیدل چلنا بھی دشوار ہے۔

ایسی صورتحال میں خدانخواستہ کوئی آتشزدگی وغیرہ کا سانحہ پیش آگیا تو بدنظم ترین نظام کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے لیے مارکیٹ میں داخل ہونا ہی ممکن نہیں ہوگا جس سے ممکنہ نقصان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس کا ایک مظاہرہ ہم انارکلی میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب حکومت لاہور کے حالات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔

انفراسٹرکچر کی بہتری ، تعلیم کے فروغ ، صحتِ عامہ اور ٹریفک کی روانی کے لیے بڑی سڑکوں کو سگنل فری بنانا انقلابی اقدامات ہیں لیکن ان مارکیٹوں کی جانب توجہ دینا بھی ضروری ہے جہاں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور جن سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ٹریفک کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ پارکنگ پلازے ہیں لہذا مارکیٹوں کے قرب و جوار میں پارکنگ پلازے تعمیر کیے جائیں تاکہ ٹریفک جام کی وجہ سے ان مارکیٹوں میں آنے والے گاہکوں اور تاجروں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوسکے۔

مارکیٹوں میں صفائی کی صورتحال بھی ناقص ہے چنانچہ یہاں صفائی کرنے والے عملے کو مارکیٹ کے صدر یا یونین کے کسی دوسرے عہدیدار کے پاس حاضر ہونے کا پابند کردیا جائے تو صورتحال بہت بہتر ہوجائے گی۔ اسی طرح مارکیٹوں میں ٹریفک اور محکمہ پولیس کے اہلکاروں کی تعیناتی بھی ضروری ہے تاکہ ٹریفک اور امن و امان کے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ ضلعی حکومت سربراہ اور چیف ٹریفک آفیسر کو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ مارکیٹوں کا دورہ ضرور کرنا چاہیے جس سے ایک طرف تو انہیں مارکیٹوں کو درپیش مسائل سے آگاہی ملے گی اور دوسری طرف حکومت اور تاجر برادری کے تعلق بہت مستحکم ہونگے۔

میں خود ایک تاجر ہوں اور یہ بڑی اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہماری تاجر برادری محب وطن اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں بنیادی سہولیات اور بہترین کاروباری ماحول مہیا کیا جائے تاکہ یہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا خاطر خواہ کردار ادا کرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muashi o Taraqqi o Khushkhali Main Tajiron Ka Kirdar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 December 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.