معاشی قتل اور معاشی دہشت گردی

وطن عزیز میں جس طرح دہشت گردی باضابطہ تسلسل کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے ہو رہی تھی اور عروج تک پہنچ گئی تھی اور مسلسل نہ صرف انسانوں کا قتل بلکہ انسانیت کا قتل عام ہو رہا تھا قرآنی مفہوم کے مطابق اس کے خلاف وطن عزیز کے عظیم ستونوں نے بھی اپنی مسلسل کوششوں اور کاوشوں سے اور کئی ہزاروں اور سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطن اور سرحدوں کے محافظوں نے ملک وطن اور قوم و ملت کا سر فخر سے بلند کیا ہے

جمعرات 22 ستمبر 2016

Muashi Qatal Or Muashi DehshaatGardi
وطن عزیز میں جس طرح دہشت گردی باضابطہ تسلسل کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے ہو رہی تھی اور عروج تک پہنچ گئی تھی اور مسلسل نہ صرف انسانوں کا قتل بلکہ انسانیت کا قتل عام ہو رہا تھا قرآنی مفہوم کے مطابق اس کے خلاف وطن عزیز کے عظیم ستونوں نے بھی اپنی مسلسل کوششوں اور کاوشوں سے اور کئی ہزاروں اور سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطن اور سرحدوں کے محافظوں نے ملک وطن اور قوم و ملت کا سر فخر سے بلند کیا ہے اب ضرب عضب اور دوسرے کئی محاذوں پر دن و رات محنت سے ایک مستعد، نڈر، بہارد اور شجاع سپہ سالار کی قیادت میں اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کے لئے کمر باندھ کر شب و روز مسلح کھڑے ہیں اور جس ہمت اور حوصلے کیساتھ سپہ سالار اپنے جوانوں کے ہمراہ پر عزم ہیں آخری دہشت گرد کو ختم کرنے تک پوری قوم کی امیدیں اور نظریں بھی اسی عزم و حوصلے کیساتھ پر امید نظر آتی ہیں پورے ملک میں جہاں بم دھماکے اغواء کاری حساس تنصیبات پر حملہ کیا جاتا رہا اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا رہا اس کا ازالہ ممکن نہیں لیکن بہر حال اب ماضی کی نسبت امن وامان ہر سطح پر نظر آرہا ہے مگر اس دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم تو ہے لیکن ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی انسانیت کے چہروں سے مسکراہٹ کو چھینے والی، غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے والی اور متوسط و غریب لوگوں کا جو ہر روز قتل عام ہوتا ہے اس کے معاشی قتل اور معاشی دہشت گردی کو کون روکے گا؟ کون اس کے خلاف ضرب عضب کرے گا؟ کون اس معاشی قتل اور معاشی دہشت گردی کو روکے گا؟ جو آج عا م انسانوں کو ایک غریب کو صبح وشام مار رہی ہے اور قتل کر رہی ہے اور یہ ہے معاشی دہشت گردی۔

(جاری ہے)

آج وطن عزیز میں کرپشن کا ناسور اس قدر ہر جگہ اور ہر قومی ادارے میں پھیل چکا ہے کہ وہ معاشی قتل اور معاشی دہشت گردی کی شکل ہی اختیار کر گیا ہے۔ جتنے بڑے سرکاری قومی ادارے ہیں جن میں تعلیمی ادارے اور دوسرے تمام بڑے اداروں میں اور بالخصوص پاکستان اسٹیل ملز جو پاکستان کا واحد فولادی ادارہ ہے مسلسل تنزلی کی طرف جا رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کئی اسٹیل ملز سرکار کی ملکیت میں ہوتیں مگر ناعاقبت اندیش اور مفاد پرستوں نے ترقی کے عمل کو روکا اور ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک کے بڑے اور واحد فولادی ادارے کو تباہی کے نہج پر لا کھڑا کردیا۔ آج قومی اداروں کو اس قدر کرپشن کے ناسور نے کھوکھلا کر دیا ہے کہ وہ ادارہ جو اپنے ملازمین کو بونس اور دیگر شاندار مراعات کے ساتھ ساتھ قومی خزانے کو بھی بڑھا رہا تھا وہی ادارہ ملازمین کی تنخواہیں وفاقی کابینہ سے مانگ مانگ کر پوری کر رہا ہے اس وقت بھی ۴ ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں اور ادارہ ملازمین کا مقروض ہے اور وہ لوگ جو ریٹائرڈ ہیں ان کے بقایا جات میں سے کچھ بھی انکو نہیں ملا ہے۔

اس قدر مالی مشکلات؟ لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ رک چکا ہے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے آپ خود اندازہ لگائیں کہ ملازمت پیشہ افراد جن کا انحصار ہی ہر ماہ کی آخری تاریخ کو آنے والی تنخواہ پہ ہو اگر ایسے افراد کو ۴ ماہ سے اپنے حق سے محروم رکھا جائے اور محنت کا ثمر یعنی تنخواہ نہ ملے تو کیسے وہ روز مرہ کی زندگی کو چلائیں گے۔

یہ لوگوں کا معاشی قتل نہیں کیا جا رہا تو اور کیا ہے؟ اس کو اگر ہم معاشی دہشت گردی نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے؟ کہاں جائیں گے وہ افراد جن کے بچے زیر تعلیم ہیں؟ ایک کثیر تعداد جو کرایہ کے گھروں میں رہ رہی ہے؟ جن کے بچوں اور بچیوں کی شادیاں ہونی ہیں؟ وہ کہاں سے اخراجات کو پورا کریں گے؟ ان مشکلات کا اندازہ وہ طبقہ کبھی بھی نہیں کر سکتا ہے جو ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر زندگی کی بہاروں کو گذار رہا ہو جس کو کبھی پیاس نہ لگی ہو اور نہ ہی بھوک وہ آج کے پاکستانی معاشرے میں بسنے والے غربت کی زندگی گذارنے والے اور مڈل کلاس کے افراد کے مسائل کو سمجھ نہیں سکتا۔

ان غریب اور متوسط لوگوں کے حقوق کی بات نہیں کر تا آج ہمارا معاشرہ جہاں شعور اور بصیرت کا فقدان ہے معنوی و روحانی نام کی کوئی شئے ہے۔ اس سے بہت ہی کم لوگ آشنا ہیں بدقسمتی سے اس معاشرے میں سماج کے عام افراد کے دردوں اور دکھوں کو سمجھنے والے اور سماجی مسائل کو تشخیص دینے والے با بصیرت لوگوں کی بھی کمی ہے جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور معاشرتی، سماجی اور معاشی غرض کی ہر طرح کے مسائل کی تشخیص دے سکیں اور ان کا مناسب حل بھی تجویز کر سکیں۔

نیب جو ایک قومی ادارہ ہے جس کا کام ہی احتساب کا ہے وہ بڑے مگرمچھوں اور معاشی بدمعاشوں اور عام افراد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے معاشی دہشتگردوں کے اسکینڈلز کو کھولنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے چھوٹے موٹے کیسز کو ڈیل کرکے ایک طرف اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کا ڈھونگ رچاتا ہے دوسری طرف عام افراد کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔

وگرنہ پاکستان اسٹیل ملز جیسے ادارے میں ”جہاں مٹی کو سونا بنایا جاتا ہے“ اس کے کرپشن کے کیسز کو کھولتا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتا لیکن نہیں بلکہ ”مٹی پاوٴ“ پالیسی پر عمل پیرا نظر آرہا ہے۔ ورنہ یہ منافع بخش ادارہ کبھی بھی تنزلی کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی اس طرح کے حالات ہوتے۔ جس کی وجہ سے ملازمین کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔

یہی حال کم وبیش ہر سرکاری ادارے کا ہے۔پس حقوق سے محروم، غربت کے مارے ہوئے لوگ، مساکین، بیوائیں، یتیم اور وہ تمام افراد جو اپنی ضرورتوں اور حقوق کے حصول سے محروم ہیں اور پاکستان میں جہاں کہیں بھی ہیں وہ ایک ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو آکر اس پسے ہوئے طبقے کو ان کے حقوق دلائے اور اس معاشی قتل اور دہشتگردی کا بھی قلع قمع کرے اور اس کے خلاف بھی ”ضرب عضب“ اور ”کومبنگ آپریشن“ کریں تاکہ غریب اور مڈل کلاس بھی معاشرے میں عزت کی زندگی گذار سکیں اور ان تک بھی حقوق پہنچ سکیں اور ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے جس میں عزم وانصاف کا بول بالا ہو اور معاشرے کا ہر فرد بلا امتیاز اپنی بنیادی حقوق تک رسائی حاصل کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Muashi Qatal Or Muashi DehshaatGardi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.