نمک۔۔۔قدرت کی بے مثال نعمتوں میں سے ایک

پاکستان کی خوش نصیبی کہ جہاں اس نعمت خداوندی کے وسیع زخائر موجود ہیں

جمعہ 22 اپریل 2016

Namak
نمک کے بغیر ہمارے گھروں کے کھانوں میں ذائقہ نہیں آسکتا۔ نمک ہرگھر کے دسترخوان کاحصہ ہے مگر ایک وقت تھا جب یہ صرف بادشاہوں کے دسترخوانوں پر موجود ہوتا تھا۔ نمک کی اتنی اہمیت تھی کہ گھر کی معزز شخصیت کو نمک کے پاس بٹھایا جاتا تھا۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں اگر کوئی نمک چراتے ہوئے پکڑا جاتا تو اُسے جیل میں ڈالا جاتا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں جب نمک کا حصول اتنا آسان نہیں تھا تو نمک کو بھی سونے اورچاندی کی طرح شاہی خزانے کاحصہ سمجھا جاتاتھا۔

یہی وجہ ہے کہ نمک کی جھیلوں اور نمک کی کانوں ا ور قبضہ کرنے کیلئے کئی لڑائیاں بھی لڑی گئیں۔وینس نے جنیواسے جنگ کے لیے نمک کو ہی بہانہ بنایا تھا۔ نمک قدرت کی بے مثال نعمتوں میں سے ایک ہے اسے چٹانیں کاٹ کریاسمندری پانی خشک کرکے حاصل کیاجاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ دنیا کی واحد چیز ہے جسے پانی میں گھلانے سے یہ مائع کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور اگر اسے خشک کر لیا جائے تو یہ پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے۔

نمک صرف کھانے کے ہی کام نہیں آتا بلکہ یہ خوراک کو محفوظ کرنے ، کاغذسازی، ٹیکسٹائل انڈسٹری، کیمیکلز کی تیاری، شیشہ سازی، صابن وڈٹرجنٹ کی تیاری اور جڑی بوٹیوں کی تلفی سے اور ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں نمک کے وسیع پہاڑی سلسلے موجود ہیں یہ سلسلے کو ہ ہمالیہ کی جنوبی سمت راولپنڈی اور جہلم کے ایک بڑے حصے پر محیط ہیں۔

اس خطے میں پائی جانیوالی کھیوڑہ کی کانیں اپنے رقبے اور ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان پولینڈ کے شہر کراکو میں واقع ہے۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم کان ہے جوآج بھی کام کررہی ہے۔ وطن عزیز کی سرزمین سرسبز وادیوں برف کی سفید چوٹیوں اور سبز کھلیانوں کی زمین ہے وہاں یہ کھلے صحراؤں، ریگزاروں اور نخلستانوں کوسینے سے لگائے اپنی خوبصورتی پرنازاں ہے کیونکہ ان صحراؤں میں زندگی ہزاروں سالہ پرانی روایات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں اور اس جدید دنیا کو حیران کیے ہوئے ہیں کہ یہ لوگ ان ریت کے نیلوں پرکس طرح جی رہے ہیں۔

یہاں کی خواتین آج بھی دور دراز علاقوں سے پانی کے بھرے مٹکے سرپراٹھا کرلاتی ہیں اور زندگی کی کتاب کے صفحے پلٹتی ہیں مگریہاں آجکل موت کا راج ہے، گزشتہ چار سالوں سے یہ علاقہ مسلسل خشک سالی کاشکار ہے اور یہاں کے نومولود بچے زندگی کی ڈور کو برقرار نہیں رکھ پارہے ہیں اور اس جہاں کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ایسے میں سوال پیداہوتا ہے کہ اتنے خشک ریگستانوں میں لوگ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں اور ان کے پاس زندگی جینے کے کیا وسائل ہیں؟ تو جس طرح کہاجاتا ہے کہ رب تعالیٰ پتھر میں بھی کیڑے کو رزق فراہم کرتا ہے اور کسی انسان کی پیدائش سے قبل اس کے رزق کابندوبست کرتا ہے۔

اسی طرح ان ریگستانوں کے رہنے والوں کیلئے نمک کی جھلیں قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ یہ جھیلیں علاقے کی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ کیونکہ ان علاقوں میں نہ تو کوئی صنعت قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہی یہاں کے رہنے والوں کے پاس کوئی اور ذریعہ آمدنی ہے۔ ایسے میں یہ جھیلیں ہی انکااوڑھنا بچھونا ہیں۔ ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جھیلوں کو مقامی لوگوں کیلئے بہتر سے بہتر بنایاجائے۔

یہاں پر کام کرنیوالوں کیلئے چشمے دستانے اور جوتے گراہم کیے جائیں۔ ان کے لیے ابتدائی طبی امداد کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ انہیں مناسب اجرت دی جائے تاکہ یہ لوگ بھی خوبصورت زندگی گزار سکیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان جھیلوں پر جب سے مشینوں کے ذریعے کام ہونے لگا ہے۔ یہ مزدور بیروزگار ہورہے ہیں ایسے میں ان کے دلوں میں یہ خوف پیداہوگیا ہے کہ کہیں یہ واحد ذریعہ آمدنی بھی ان سے چھن نہ جائے کیونکہ خشک سالی نے تو پہلے ہی زندگی کاسفر مشکل ترین کردیاہے ایسے میں ان لوگوں سے اگرزندگی کا یہ سہارا بھی چھن جائے تو قدیم روایات کو زندہ رکھنے والے یہ لوگ کب تک زندہ رہ سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Namak is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.