نجی سکول مافیا

سرکار کی نظر سے اوجھل کیوں

جمعہ 26 فروری 2016

Niji School Mafia
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ لوگ اب سرکاری سکولوں پر اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری جانب نجی سکول مافیا بھی اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھارہا ہے۔ بظاہر توسرکارنے نجی تعلیمی اداروں کے لئے بھی قوانین بنارکھے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اکثر ادارے سرکاری احکامات کوردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔

یہ سکول ریاست کے اندر ریاست کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں جہاں ان کے مالکان کے احکامات چلتے ہیں اور اگرریاست کے قوانی واحکامات ان سے ٹکرائیں توشکست ریاستی احکامات کوہی ہوتی ہے۔ان تعلیمی اداروں کا طریقہ واردات بھی عجیب وغریب ہے۔ ان کے پاس ایس کوئی ٹھوس وضاحت بھی نہیں ہوتی کہ یہ جتنی اضافی رقم طلب کررہے ہیں اور اس قدرزیادہ کیوں ہے۔

(جاری ہے)

امتحانات سے قبل پیپرزفنڈز کے نام پر والدین دے بھاری رقوم حاصل کی جاتی ہیں اس طرح کئی خود ساختہ فنڈز قائم کئے جاتے ہیں اور طالب علم کیلئے لازم ہوتا ہے کہ وہ اس مد میں بھی رقم جمع کروائے۔ دوسری جانب یہی ادارے انکم ٹیکس سے بچنے کیلئے جھوٹ اور بداعنوانی کاسہارا لیتے ہیں۔ داخلہ فیس، ٹیوشین فیس سمیت دیگر کئی فیسیں تو معمول کی بات ہیں لیکن اس کے علاوہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی وجہ بناکر ” فیسیں“ یافنڈاکٹھا کرلیا جاتا ہے۔

اب ایک اور سلسلہ بھی چل نکلا ہے اکثر نجی سکولز کی انتظامیہ نے بچوں کابستہ ہلکاکرنے کے لئے والدین کی جیب ہلکی کرنے کی پالیسی اپنالی ہے۔ یہ لوگ سال بھرکی سٹیشنری آغاز میں ہی منگواتے ہیں۔ بچوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ سال بھر کیلئے اتنی کاپیاں، پنسل، ربر، شاپنر، گلیٹرزشیٹیں، چاٹس، پنیں، قینچی، گم سٹکس، ٹیشوپیپر کے ڈبے یہ تمام چیزیں ابتدا میں ہی سکول میں جمع کروادی جائیں۔

ایسے احکامات کی وجہ سے بچوں کے والدین کو یکمشت بڑی رقم اداکرنی پڑتی ہے جو مہنگائی کے اس دور میں کسی ظلم اداکرنی پڑتی ہے جو مہنگائی کے اس دور میں کسی ظلم سے کم نہیں۔ اس سلسلے میں بظاہر کوئی کرپشن نہیں ہوتی جو والدین مطلوبہ اشیا خود خرید کر دینا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہوتی ہے جووالدین سکول انتظامیہ پر بھروسہ کریں اور اخراجات کی رقم جمع کروادیں تو انتظامیہ خود یہ اشیا ان کے بچے کے لئے خریدلے گی۔

سکول کی جانب سے یہ سروس فری ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ کہانی اتنی سادہ نہیں جتنی کہ دکھائی دیتی ہے۔ عام طور پر جن طالب علموں کے والدین رقم جمع کرواتے ہیں وہ انتظامیہ ہضم کرلیتی ہے۔ کلاس میں ایک ہی ربر” میڈم“ کے پاس ہوتا ہے جس بچے کو ضرورت ہو” میڈم“ اس کی مدد کردیتی ہے۔ اس طرح سکول کے گودام میں موجود ” مال غنیمت“ کسی بک سٹور پر آدھی قیمت میں دوبارہ ” فروخت “ کر دیاجاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹروں سے ادویات دوبارہ میڈیکل سٹوروں پر ” فروخت“ ہوتی ہیں۔

اس سلسلے میں ماہر نفسیات کاکہنا ہے کہ جب بچے کو خود یہ چیزیں استعمال نہ کرنے دی جائیں تو وہ نفیساتی طور پر دوسروں کا محتاج ہونے لگتے ہیں۔ عملی زندگی میں ایسے بچے خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور فیصلہ سازی کی طاقت سے محروم نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہر قدم پر دوسروں کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اس کے علاوہ بھی مختلف حربوں سے لوٹ مار کابازام گرم کئے ہوئے ہیں۔

والدین کو خوش رکھنے اور جیب ڈھیلی رکھنے کے لئے یہ عموماََ کلاس کے ہر طالب علم کو کسی نہ کسی مد میں انعام دے دیتے ہیں۔ اگر طالب علم پڑھائی میں زیادہ اچھانہ ہوتو ذہانت، صفائی کھیل کود، کلاس ایکٹویٹی، معصومیت اور ایسی ہی کئی کیٹگریز میں سے کسی نہ کسی مد میں اسے اول دوم یا سوم کا انعام مل جاتا ہے۔والدین کو اس دعوکہ منڈی کا احساس تب ہوتا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو ریاست کے اندریہ ریاست نظر نہیں آتی؟ یا پھر نجی تعلیمی مافیا کے مفادات سرکار کے مفادات سے مل چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Niji School Mafia is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.