پاک چین روس سہ فریقی مذاکرات

رو س میں گزشتہ روز منعقد ہونے والے اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلے اور اہم ترین سہ فریقی مذاکرات میں میزبان کے علاوہ چین اور پاکستان کے وفود نے شر کت کی سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے ان مذاکرات میں تینوں ممالک کے مابین باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ بطور خاص افغانستان میں امن کے قیام اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کی شمولیت پر غور و خوض کیا گیا

پیر 2 جنوری 2017

Pak China Russia Seh Fareeqi Muzakrat
رو س میں گزشتہ روز منعقد ہونے والے اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلے اور اہم ترین سہ فریقی مذاکرات میں میزبان کے علاوہ چین اور پاکستان کے وفود نے شر کت کی سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے ان مذاکرات میں تینوں ممالک کے مابین باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ بطور خاص افغانستان میں امن کے قیام اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کی شمولیت پر غور و خوض کیا گیا۔

اپنے محل و قوع کے تناظر میں سال بھر فعال رہنے والی بندر گاہوں تک رسائی ،روس کا ایک بڑا دیرینہ خواب رہا ہے اشتراکی انقلاب کے بعد اس وقت کے سویت یونین نے متعدد یورپی ممالک پر قبضے کے بعد افغانستان کا رخ کیا تو بیشتر تجزیہ نگاروں نے روس کے اس فیصلے کو کراچی کی بندرگاہ تک پہنچنے کے مقاصد سے جوڑنے کی کوشش کی اور انہیں خدشات کے پیش نظر ہی پاکستان نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ملکر افغانستان میں روس کے خلاف عالمی جہاد شروع کر نے، مذاحمتی قوتوں کو وسائل و تربیت فراہم کر نے اور عالمی سطح پر روس کے اس قدم کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

تا ہم آنے والے حالات نے یہ ثابت کیا کہ روس کا راستہ روکنے اور ویتنام کا انتقام لینے کے لیے مغر بی ممالک نے پاکستان کو استعمال کیا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کے دل و دماغ میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے روس کے کردار کا بدلہ چکانے کے جذبات بھی موجود تھے۔ روس کے خلاف اس عالمی جدوجہد میں حصہ لینے والے دیگر ممالک تو روسی افواج کو دریائے آموکے پار دھکیلنے کے بعدپیچھے ہٹ گئے تا ہم پاکستان آج بھی جنگ افغانستان کے تباہ کن اثرات کا سامنا کر رہا ہے جس سے عام پاکستانی کی زندگی میں بارود کا دھواں رچ بس گیا ہے۔

قومی ضروریات کی تکمیل اور آنے والے سالوں کے دوران امریکی چھتری تلے موجود بھارت ،جاپان اور ویتنام وغیرہ کی طرف سے اپنے تجارتی راستوں کی راہ میں ممکنہ طور پر رکاوٹ ڈالنے کے امکانات کے پیش نظرچین ان دنوں متعدد عالمی راہداریاں قائم کر رہا ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری یا سی پیک بھی چین کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو ماضی کے شورش زدہ صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر سے لیکر پاکستان کے تمام صوبوں سے ہوتی ہوئی گوادر تک پہنچتی ہے جو دنیا کی دوسری بڑی گہری قدرتی بندرگاہ ہے اور جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عالمی اہمیت کی حامل ہے۔

جہاں سے چین با آسانی افریقہ اور یورپ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے خوش قسمتی سے پاکستان بھی اس منصوبے سے نا صرف مالی اور اقتصادی فوائد سمیٹ سکتا ہے بلکہ اس کی تکمیل کے بعد پاکستان کا دفاع ہمارے علاوہ خود چین کی بھی ایک ناگزیر قومی ضرورت بن جائے گا ۔کیونکہ کشمیر ،گلگت بلتستان ،کے پی کے ،پنجاب ،سندھ اور بلوچستان الغرض وفاق پاکستان کی تمام اکائیاں اس روٹ سے جڑی ہوئی ہیں جسے بجا طور پر خطے میں گیم چینجر کا عنوان دیا جارہا ہے اور جس کے خلاف آج بھی پاکستان دشمن قوتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی نظر آتی ہیں۔

افغانستان میں امن کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری میں روس کی گہری دلچسپی ایک فطری امر ہے جس میں شمولیت کے لیے پاکستان اور چین دونوں کی طرف سے روس کو دعوت بھی دی گئی ہے۔ سی پیک سے وابستہ روس کی انہیں توقعات کی روشنی میں ہی حالیہ سالوں کے دوران پاک روس تعلقات میں نمایاں طور پر ابھار سامنے آرہا ہے دونوں ممالک کے مابین حالیہ جنگی مشقیں بھی اس کا مظہر ہیں جو بھارتی احتجاج کے باوجود جاری رہیں ۔

بھارتی صوبے مشرقی پنجاب میں افغانستان کے متعلق منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھارت اور افغانستان کے تنقیدی رویوں پر روسی مندوب کا اعتراض بھی خوشگوار ہوتے ہوئے پاک روس تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے ۔سی پیک ایک ایسے عالمی منصوبے کی شکل میں سامنے آرہا ہے جس میں شمولیت کے لیے متعدد ممالک رابطے کر رہے ہیں ماضی میں بھارت کے تعاون سے چابہار بندرگاہ کی تعمیر اور وہاں سے سڑک کے ذریعے افغانستان اور بعد میں وسطی ایشیاء تک رسائی میں دلچسپی رکھنے و۱لا ایران بھی اب سی پیک کے ذریعے اپنی گیس پاکستان اورخاص طور چین کو فروخت کر نے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔

جہاں تک افغانستان میں جنگ کی بجائے امن کے قیام کا تعلق ہے وہ پاکستان ،روس اور چین کے علاوہ پوری دنیا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی خوشحالی ،افغانستان میں امن و امان کی صورتحال سے جڑی ہوئی ہے جبکہ چین کے صوبے سنکیانگ میں متحرک بعض علیحدگی پسند گروہوں کا خاتمہ اور روس کے بطن سے جنم لینے والی وسطی ایشیائی ریاستوں میں امن کا قیام بھی افغانستان میں امن کا تقاضا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے روس ،پاکستان اور چین ملکرافغانستان میں اپنی اجتماعی کوششوں کے ذریعے امن کی بحالی چاہتے ہیں حالیہ سالوں کے دوران چین نے افغانستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی ہے جبکہ افغانستان میں موجود ،روس کے مفادات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان عالمی حقائق کی روشنی میں پاکستان ،روس اور چین کے مابین منعقد ہونے والے حالیہ سہ فریقی مذاکرات انتہائی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں ایک دوسرے کے سامنے سینہ سپر،پاکستان اور روس کے مابین موجود تلخیاں آج چین کے توسط سے خوشگوار تعلقات میں بدل رہی ہیں۔ جو پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی دوررس اہمیت کی حامل ہیں امریکہ کا دم چھلا بنا بھارت ،پاکستان اور چین کے خلاف ہر عالمی فورم پر سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔بھارت نا صرف پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے در پے ہے بلکہ امریکی آشیر باد سے چین کی اقتصادی اور دفاعی محاذ پر بھی رکاوٹ بننے کی کوششیں کرتا رہتا ہے جس کا توڑ کر نے کے لیے اب پاکستان اور چین بھی ادارہ جاتی شکل میں پیش رفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔

حالیہ سہ فریقی مذاکرات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جن کا مقصد اپنے معاشی اہداف حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak China Russia Seh Fareeqi Muzakrat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 January 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.