پاک بھارت کشیدگی

پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات دنیا بھر میں بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ آپس میں ہمسایہ ہونے کے باوجود دل ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ یہ صورتحال شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں دو ہمسایہ ممالک میں پائی جاتی ہو۔ دونوں ممالک نے تخت برطانیہ سے ایک ساتھ آزادی حاصل کی اور اس دن سے کچھ مسائل ورثے میں ایسے ملے کہ گذشتہ 70 سال سے نہ صرف حل طلب ہیں بلکہ کشیدگی کا باعث بھی۔ دونوں ممالک گذشتہ 70سال کے دوران کم ازکم چار جنگیں لڑ چکے ہیں مگر نہ مسائل حل ہوئے اور نہ ہی تعلقات میں بہتری آئی

جمعہ 21 اکتوبر 2016

Pak India Kasheedgi
رابعہ رحمن:
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات دنیا بھر میں بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ آپس میں ہمسایہ ہونے کے باوجود دل ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ یہ صورتحال شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں دو ہمسایہ ممالک میں پائی جاتی ہو۔ دونوں ممالک نے تخت برطانیہ سے ایک ساتھ آزادی حاصل کی اور اس دن سے کچھ مسائل ورثے میں ایسے ملے کہ گذشتہ 70 سال سے نہ صرف حل طلب ہیں بلکہ کشیدگی کا باعث بھی۔

دونوں ممالک گذشتہ 70سال کے دوران کم ازکم چار جنگیں لڑ چکے ہیں مگر نہ مسائل حل ہوئے اور نہ ہی تعلقات میں بہتری آئی۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی اب کوئی غیر معمولی بات نہیں اور دونوں ممالک اس صورتحال کے اب تقریباً عادی ہو چکے ہیں۔ آپس کے تعلقات میں کشیدگی میں پہل ہمیشہ ہندوستان کے رویئے اور کچھ اشتعال انگیز اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک میں تناوٴ اور دشمنی کی ایک بڑی وجہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی یہ حیثیت کوئی پاکستان کی پیدا کردہ یا اعلان کردہ نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے اس کا فیصلہ وہاں کے عوام پر چھوڑ دیا تھا۔ تقریباً 70سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ہندوستان اقوامِ متحدہ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا اور یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔

پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور آج بھی مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور مظلوم عوام بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تناوٴ کی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب تقریباً 3ماہ قبل ہندوستان کی قابض فوج نے ایک نوجوان کشمیری حریت پسند برہان وانی کو شہید کیا جس کے ردعمل میں تشدد کا ایسا سلسلہ چل نکلا جو آج بھی جاری ہے۔

اس دوران 100 سے زائد کشمیری شہید اور 800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس بھیانک صورتحال کو پاکستان نے دنیا جہاں میں اجاگر کیا اور وزیراعظم پاکستان نے 21ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ہندوستانی عزائم اور بربریت کوپوری دْنیا کے سامنے بھرپور انداز میں بے نقاب کیا۔ ہندوستان نے اس دوران مقبوضہ کشمیر میں اْڑی کے علاقے میں فوجی کیمپ پر حملے کا خود ساختہ ڈرامہ رچا کر دْنیا کی اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کی۔

ہندوستان کی نااہل اور انتہا پسند سیاسی قیادت نے بھی اپنے رویے اور بیانات سے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا ہے اوریہ اشتعال انگیز بیانات اب روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ جوکہ سب کو علم ہے کہ ایک ناممکن سی بات ہے کیونکہ ایسا کرنا اعلان جارحیت کے مترادف ہے۔ یہ دْشمنی اب ثقافت، تجارت اور کھیل کے میدانوں تک جا پہنچی ہے۔ ہندوستان کے عاقبت نااندیش وزیراعظم سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

لائن آف کنڑول اور ورکنگ باوٴنڈری پر فائرنگ اور خلاف ورزیوں کا سلسلہ ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ سفارتی محاذ پر بھی صورتحال مختلف نہیں جہاں ہندوستان ہر طرح سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو تنہا کیا جائے اور دنیا کے سامنے ہمیں دہشت گرد ثابت کرے۔ اب تک ہماری طرف سے موثر حکمت عملی کی وجہ سے دْشمن کی ایسی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔

بی جے پی کی انتہا پسند اور پاکستان دْشمن حکومت سے اسی طرح کے اقدامات اور رویے کی توقع تھی۔ پاکستان نے اب تک نہ صرف صبرو تحمل سے کام لیا ہے بلکہ صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے بھی ہر طرح کی پیشکش کی بھی ہے۔ دشمن شاید ہماری امن اور تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری سمجھ بیٹھا ہے۔ سارک ممالک کی سربراہ کانفرنس کا ملتوی ہونا بھی ہندوستان کے طرزِ عمل اور جارحانہ عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی قوتیں ہیں جن کے درمیان جنگ اور فوجی تصادم ایک ایسی تباہی لا سکتا ہے جس کا احساس شاید ہندوستان اورعالمی دنیا کو نہیں۔ پاکستان کی افواج اور عوام ہندوستان کے کسی بھی جارحانہ اقدام کو نہ صرف ناکام بنانے کیلئے پر عزم اور ہر دم تیار نہیں بلکہ ایسی کسی بزدلانہ حرکت کا منہ توڑ جواب دینے کے بھرپور عزم کا بھی اظہار کر چکی ہیں۔

ہندوستانی میڈیا نے اپنی حکومت کے ایما پر جنگ کا ماحول بنا رکھا ہے جس کا نقصان بھی اْسے ہی ہو گا۔ جب آپ شدت پسندبیانات سے ماحول کو اتنا گرما دیں گے اور اپنی عوام کے جذبات کو اتنا بھڑ کا دیں گے تو پھر عملی طور پر کچھ نہ کر پانے کی صورت میں عوام کا غصہ بھی عروج پر ہو گا۔ ہندوستان کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو مرعوب نہیں کر سکتا اور ہمارے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ دشمن کو بھرپور سبق سکھا سکیں۔

ملک کے اندر بہرحال کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اندرونی طور پر کمزور نہ ہوں جس کا فائدہ ہمیشہ دشمن کو ہی ہوتاہے۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم برداشت اور کشیدگی ہے جو ہمیں اندر سے تقسیم اور کمزور کر رہی ہے اگر ہم سیاسی مخالفت اور عناد بھول کر کچھ دیر کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کریں تو اس سے دْشمن کو بالخصوص اور دنیا کو بالعموم ایک واضع پیغام جائے گا مگر بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا۔

یہ وقت ذاتی مفادات،مخالفت برائے مخالفت اور پوائنٹ سکورنگ کا نہیں بلکہ برداشت اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ ہندوستان سے کشیدہ تعلقات اور جنگ جیسے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دینے میں ہی سب کی بہتری ہے کیونکہ فیصلے تو بحرحال حکومتِ وقت نے ہی کرنے ہیں۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اتحاد کی فضا پیدا کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر کچھ عرصہ کیلئے ریٹنگ کی دوڑ سے نکلتے ہوئے صرف اس صورتحال پر قوم میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کیلئے تمام توانائیاں بروئے کار لائیں۔ تویہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہوگی۔ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اور وزیراعظم نے پارلیمانی قائدین سے مشاورت کر کے یقیناً ایک اچھا کام کیا ہے جسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہ سیاسی قائدین جو بلانے کے باوجود وزیراعظم کے مشاورتی اجلاس میں نہیں آئے انہیں اپنے طرزعمل پر غورکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا کر کے وہ کوئی قومی خدمت نہیں کر رہے۔

ہمارے کسی اقدام سے دْشمن کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس مرحلے پر تقسیم کا شکار ہیں۔ ایک متحد قوم اپنی فوج کیلئے بھی بھرپور حوصلے کا باعث بنتی ہے۔ ایک مضبوط اور متحد پاکستان خطے میں ہندوستان کے جارحانہ اور شدت پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر جنگ کا ماحول تو نہیں پیدا کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اتحاد، یگانگت اور جذبہ حب الوطنی کو بھی پروان چڑھانے کی اشدضرورت ہے۔

سفارتی محاذ پر بھی مزید اقدامات کی ضروت ہے تا کہ دْنیا کو صورتحال کی سنگینی کا بھی احساس ہو اور ہندوستان کی انتہا پسندانہ کارروائیوں کا بھی۔ ہمارا ایٹمی پروگرام خطے میں توازن برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہندوستان جیسے مکار اور ازلی دشمن کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اندر سے مضبوط بنائیں اور بحیثیت قوم اتحاد و یگانگت کا بھرپور مظاہرہ کریں۔ نریندر مودی جیسے انتہا پسند اور عاقبت نااندیش لوگ اپنے ہی لوگوں کیلئے تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں نہایت چوکنا اور تیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کوئی بھی اچانک پن حاصل نہ کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak India Kasheedgi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.