پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہے۔ اسوقت سے ان خطرات سے نبرد آزما ہے لیکن ان خطرات پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکا۔ بیرونی دشمن تو رہے اپنی جگہ انکی دشمنی ڈھکی چھپی بھی نہیں۔انہیں جب بھی موقعہ ملتا ہے تو وہ پاکستان کی سا لمیت پر وار کرنے سے باز نہیں آتے لیکن پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچانے والے پاکستان کے اندرونی دشمن ہیں جو پاکستان کے اپنے ہی بیٹے ہیں

ہفتہ 17 ستمبر 2016

Pakistan Ki Salmiyat Khatre Main Hai
سکندر خان بلوچ:
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہے۔ اسوقت سے ان خطرات سے نبرد آزما ہے لیکن ان خطرات پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکا۔ بیرونی دشمن تو رہے اپنی جگہ انکی دشمنی ڈھکی چھپی بھی نہیں۔انہیں جب بھی موقعہ ملتا ہے تو وہ پاکستان کی سا لمیت پر وار کرنے سے باز نہیں آتے لیکن پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچانے والے پاکستان کے اندرونی دشمن ہیں جو پاکستان کے اپنے ہی بیٹے ہیں۔

پاکستان کو نقصان پہنچانے والا پہلا شخص شیخ مجیب الرحمن تھا۔ وہ شروع میں تو پاکستان مخالف نہ تھا پھر نجانے اسے کیا ہوا کہ اسکے تعلقات بھارتی ایجنسیوں سے استوار ہوئے جو وقت کے ساتھ ” اگر تلہ“ سازش کیس میں پروان چڑ ھتے رہے۔

(جاری ہے)

شیخ صاحب نے بھارتی سر پرستی میں 6نقاط کا نعرہ لگایا جو با لآ خر پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بن گیا۔ ہمارے مغربی پاکستان کے کوتاہ نظر سیاستدان 6نقاط میں چھپی بھارتی چالاکی کا ادراک ہی نہ کر سکے۔

1969میں جب اسوقت کے صدر ایوب خان نے ملک میں پھیلنے والی افراتفری کا حل نکالنے کے لئے گول میز کانفرنس بلائی تو شیخ مجیب الرحمن ” اگر تلہ“ سازش کیس میں پسِ زنداں تھا۔ اسکے خلاف غداری کا کیس چل رہا تھا۔یہ ہمارے اس وقت کے سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ایوب خان کو شیخ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کا مقدمہ ختم کر کے اسے آزاد کرنے پر مجبور کیا۔

پھر جو کچھ بعد میں ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
اسوقت وطن عزیز ایک دفعہ پھر اندرونی خطرات میں گھرا ہے۔ کچھ لوگ اپنی کارروائیوں سے اور کچھ اپنے بیانات کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ سب پاکستان ہی کے بیٹے ہیں۔کوئی غیر نہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو الطاف حسین ہیں جو لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہیں۔

میڈیا کے مطابق وہ ”را“ کے پرانے ایجنٹ ہیں اور ”را“ اور بھارت کی سرپرستی میں وہ پاکستان توڑنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کئی مواقع پر پاکستان مخالف بیانات دئیے ہیں۔قیادت کا فرض تھا کہ اسے اسی وقت روک دیا جاتا لیکن ذاتی مفادات اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ہر حکومتی اہلکار اور ہر سیاسی پارٹی نے الطاف حسین کے زہریلے بیانات کا نوٹس لینے کے بجائے ان کی خوشنودی حاصل کر نے میں ہی فخر محسوس کیا۔

کراچی میں قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کا مکروہ کھیل جاری رہا اور میڈیا کے مطابق اس سارے کھیل کا ہیرو الطاف حسین اور کھلاڑی اسکی پارٹی کے لوگ تھے۔
الطاف حسین کی پارٹی ایم کیو ایم نے کراچی کو مفلوج کر دیا۔جب چاہا ہڑتال کروائی۔جب چاہا لاشیں گرا دیں۔ جس کو چاہا اغواء کیا مگر کسی حکمران یا سیاسی پارٹی کی نہ تو آنکھیں کھلیں نہ ضمیر جاگا۔

میڈیا کی ایک خبر کے مطابق الطاف حسین نے اپنی پارٹی کارکنوں کی معرفت تقریباً 2500 بے گناہ افراد قتل کرائے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ سیاسی مصلحتوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا اور اہل اقتدار کی آنکھیں، کان اور زبانیں بند رہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں الطاف حسین بھارت بھی تشریف لے گئے۔ وہاں بھی پاک دشمنی کا جذبہ بے قابو ہو گیا۔

اپنی تقریر میں فرمایا :” برصغیر کی تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی اور سب سے بڑا المیہ تھا۔ بھارت کو مہاجروں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہم بھارت ہی کے لوگ ہیں“۔اس سے بڑی بھلا ملک دشمنی اور کیا ہو سکتی تھی مگر اس پر بھی اسوقت کی حکومت نے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب پالیسی سمجھی۔
الطاف حسین کی ملک دشمنی 22اگست کو کھل کر سامنے آئی۔

اس نے اپنے بھوک ہڑتالی کارکنوں کو خطاب کیا جس میں پاکستان کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی کی۔پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دیں۔ اپنے کارکنوں کو کچھ میڈیا ہاوٴسز پر حملوں کے لئے اکسایا اور کارکنوں نے بڑا منظم اندازمیں حملہ کیا جس سے میڈیا ہاوٴسز کو بہت نقصان پہنچا۔ ایک بے گناہ شہری موت کے منہ میں چلا گیا اور بہت سے زخمی ہوئے۔ پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی اس غلیظ زبان کے استعمال پر محب وطن شہریوں میں سخت بے چینی پھیلی۔

پورا پاکستان الطاف حسین کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تو الطاف حسین نے معافی مانگنے کا ڈرامہ رچایا لیکن اسی روز اس نے امریکہ اور جنوبی افریقہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان کے خلاف اس سے بھی زیادہ غلیظ زبان استعمال کی۔پاکستان توڑنے کے لئے امریکہ، بھارت اور اسرائیل سے بھی مدد مانگی۔ بابر غوری کو گالیاں دے کر اس سے ”پاکستان مردہ باد “ کے نعرئے لگوائے۔

یادرہے کہ حکومت نے ابھی تک اسے ”غدار “ قرار نہیں دیا۔
الطاف حسین کے علاوہ بھی پاکستان کے کچھ بیٹے پاکستان مخالف بیانات دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ ناشکرے لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان سے دل کھول کر مفادات اٹھائے اور تا حال اٹھا رہے ہیں لیکن انکی وفاداریاں کہیں اور نظر آتی ہیں۔ان میں محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان اور میر سلمان داود خان آف قلات جیسے لوگ شامل ہیں۔

اچکزئی کی پوری فیملی پاکستان سے مستفید ہورہی ہے لیکن پھر بھی فرماتے ہیں کہ:
”صوبہ خیبر پختو نخواہ افغان علاقہ ہے اور تمام افغان مہاجرین کو اس صوبے میں آجانا چاہیے جہاں انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا“ یعنی وہ پاکستان کے پیارے صوبے کو پاکستان کا صوبہ ہی نہیں مانتے۔
اسفند یار ولی خان اپنے دادا اور والد کی پیروی میں فرماتے ہیں : ” میں افغان تھا۔

افغان ہوں اور افغان رہونگا۔کسی کو افغان مہاجرین کو چھیڑ نے کی جرا ت نہیں “۔ یعنی اسفند یار اپنے آپ کو پاکستانی ہی نہیں سمجھتے۔خان آف قلات میر سلمان داود تو ویسے ہی ملک سے باہر ہیں لیکن وہاں بھی پاکستان توڑنے کے لئے بے تاب ہیں۔ مودی کا پاکستان مخالف بیانات کے لئے شکریہ ادا کیا ہے۔بھارت اور اسرائیل سے بلوچستان آزاد کرانے کی اپیل کی ہے۔

ان لوگوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے وہ منافق اور لالچی لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ملکی دولت لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنائیں اور بیرونی بینک بھرے۔ ان کے بھی وطن دشمن اقدامات کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھارتی، افغانی یا ایرانی کو اپنے ملک کے خلاف بولتے نہیں سنا۔ یہ بیماری ہماری ہی سر زمین کا خاصہ کیوں بن گئی ہے؟
الطاف حسین ملک کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی خان نسلی بنیاد پر پاکستان سے زیادہ افغانستان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ باغی بلوچ سردار خصوصاً میر سلمان دادو خانِ قلات ہر حال میں بلوچستان کی علیحدگی چاہتے ہیں چاہے انہیں بھارت اور اسرائیل سے ہی مدد کیوں نہ لینی پڑے۔کچھ وطن دشمن عناصر ملک کو لوٹ کر اسے معاشی طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی ” را “ اور افغانستان کی NDSپہلے ہی بلوچستان اور کراچی میں سرگرم ہیں۔

امریکہ بھی بار بار ڈومور کا مطالبہ کررہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی کوئی مدافعاتی پالیسی تا حال سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا پاکستان اسوقت سخت مشکلات میں گھرا ہے۔پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور بد قسمتی سے ان سازشوں میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی شامل ہیں۔
مجھے خوف آتش گل سے ہے
یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Ki Salmiyat Khatre Main Hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.