پسند کی شادی پر

نوجوان جوڑا جرگے کی بھینٹ

منگل 15 نومبر 2016

Pasand Ki Shadi Par
تنویر بیگ :
کراچی میں طالبانائزیشن کاشور ایک دہائی سے زیادہ عرصے اٹھ رہا ہے ابتداء میں حکومتی سطح پر اس تاثر کی نفی کی گئی جبکہ عوام کی جانب سے بھی ایسی خبروں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی کہ میٹرو پولیٹن سٹی میں طالبان کے مسلح جتھے انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ اپنی گرفت مضبوظ کرتے جارہے ہیں۔ عوام کی بات تو خیر چھوڑیئے اصل بے توجہی اور لاوپرواہی کا مظاہرہ حکومت کی طرف سے کیاگیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ملیر میں گلشن بونیرقائدآباد‘ شاہ لطیف ٹاؤن سے سہراب گوٹھ تک اور ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منگھو پیر ‘ سلطان آباد‘ بلدیہ ٹاؤن حتیٰ کہ بندرگاہ کے نزدیک کیماڑی ‘ گلشن سکندر آباد اورشیریں جناح کالونی تک کالعدم تحریک طالبان ہی نہیں بلکہ کا لعدم لشکر جھنگوی سمیت مسلح جنگجو گروپ اپنے پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم پولیس اور رینجرز کو ان گروپوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
مخصوص رہن سہن اور طرز عمل کے حامل دہشت گردگروپوں نے کراچی کے طرز معاشرت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور خاص طور پر کراچی کی کچی بستیوں اور نیم پختہ آبادیوں میں رائج الوقت قانون کے بجائے اپنے طور پر فیصلے کئے جانے لگے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن میں پسندکی شادی کے بعد دوسرے صوبوں سے بھاگ کرآنے والے جوڑوں کو ان کے رشتہ داروں نے تعاقب میں آکرکراچی میں قتل کیا۔

لیکن گزشتہ دنوں جو دلدوز واقعہ منظر عام پر آیا وہ اپنی سنگینی کے اعتبار سے اس لئے زیادہ تشویشناک ہے کہ اس میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو سزادینے کے لئے کراچی میں جرگہ منعقد کیاگیا اور پھر اسی جرگے میں ہی دونوں میاں بیوی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد خاموشی سے سپردخاک کردیاگیا۔ جرگے کے ظالمانہ فیصلے کی بھینٹ چڑھنے والے میاں بیوی عصمت اللہ اور عرفانہ نے ایک سال قبل پسند کی شادی کی تھی اور کوہاٹ سے کراچی آنے کے بعد کراچی کے علاقے بنارس میں رہ رہے تھے۔

شریعت کی رو سے دونوں کی شادی جائز تھی لیکن قبائلی روایات کا جنازہ نال کر عرفانہ اور عصمت نے جوجرم کیا وہ شاید ناقابل معافی تھا۔ خاندانی انااور غیرت کی اس آگ کو صرف ان کے خون سے ہی ٹھنڈا کیاجاسکتا تھا ‘ سوایسا ہی کیاگیا۔ عرفانہ اگر گھر سے بھاگی تھی یاعصمت نے اسے اغواء کیا تھا تو قانون کا سہارالیاجاسکتا تھا لیکن اسکے بجائے کراچی جیسے ماڈرن اور ترقی یافتہ شہر میں قبائلی سعید نواز نے اپنی بہن اور بہنوئی کو دھوکے سے ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن بلایااور ماموں لال قادر کی سربراہی میں منعقدہ جرگے کے سامنے پیش کردیا ۔


عام معلومات کے مطابق جرگے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور اس میں کسی نہ کسی حدتک ملزموں کو اپنی صفائی کاموقع بھی دیاجاتا ہے لیکن پسند کی شادی کے معاملے میں شاید غیرت کچھ اور ہی تقاضا کرتی ہے عرفانہ اور عصمت تواس خون کن خیال کے ساتھ سعید نواز کی دعوت پر شاہ لطیف ٹاؤن پہنچے تھے کہ اب راضی نامہ ہوجائے گا مگر جرگے میں پہنچتے ہی دونوں کو متکی ابدی نیند سلادیاگیا ‘ دونوں پرگولیاں برسانے والوں میں عرفانہ کاسکا بھائی سعید نواز اور ماموں لال قادر شامل تھے ۔

قتل کے بعد اگر چہ دونوں کی لاشوں کو رازداری کے ساتھ دفنادیا گیا تھا۔ لیکن کسی طرح پولیس کو خبر مل گئی جس کے بعد پولیس نے سعید انور اور لال قادر سمیت جرگے اور قتل میں شریک ساتوں ملزمان کو گرفتار کرلیا جن کی قسمت کا فیصلہ اب کوئی جرگہ نہیں بلکہ ملک میں رائج قانون کے مطابق عدالت کرے گی۔ مگر اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں جس قبائلی طرز معاشرت کو ہم اپنے شہروں تک لے آئے ہیں۔ اس کے ہوتے ہوئے اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ کوئی اور عرفانہ اور عصمت آئندہ خود ساختہ جرگوں کی بھینٹ نہیں چڑھیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pasand Ki Shadi Par is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.