پٹھانکوٹ تحقیقات اور بھارتی قلابازی

پاکستان کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT) بھارت کا دورہ کرکے واپس آچکی ہے۔ ٹیم نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیش کے گئے ثبوت دیکھے گواہان سے سوال جواب کیے اور جائے وقوعہ کا محدود معائینہ بھی کیا

ہفتہ 9 اپریل 2016

Pathankot Tehqiqat Or Baharti Qalabazi
ڈاکٹر احمد سلیم:
پاکستان کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT) بھارت کا دورہ کرکے واپس آچکی ہے۔ ٹیم نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیش کے گئے ثبوت دیکھے گواہان سے سوال جواب کیے اور جائے وقوعہ کا محدود معائینہ بھی کیا۔ بھارت کی اہم اپوزیشن پارٹیوں بشمول عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے اس دورے کی شدید مخالفت کی ہے۔ انکے بقول اس دورے کا مطلب ہے کہ بھار ت نے پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور تسلیم کر لیا ہے کہ آئی ایس آئی یا پاکستانی حکومت دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔

انکی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آ رہی کہ سچ کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا اور سچ یہی ہے کہ پاکستانی عوام ، ادارے اور حکومت کسی بھی دہشتگردی میں خود ملوث نہیں ہیں بلکہ پاکستان تو خود سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

دوسرا یہ کہ اگر دہشتگردی کا ایک واقعہ پیش آیا ہے جس میں بھارتی دعویٰ کیمطابق پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کچھ عناصر یا پاکستان سے کوئی شخص (ذاتی طور پر) ٹیلی فون کے ذریعے ملوث ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس تمام الزام کی حقیقت جاننے اور کسی ممکنہ مجرم تک پہنچنے کیلئے تحقیقات کی ضرورت ہے اور تحقیقات کیلئے تحقیقاتی ٹیم کی متعلقہ علاقہ اور متعلقہ گواہان تک رسائی ضروری ہے۔

پاکستان میں تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے بھارتی مطالبے پر ایف آئی آر درج کر کے بھارت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ اسکی وجہ صاف ہے کہ پاکستان کی حکومت ، ادارے اور عوام سب دہشتگردی کیخلاف سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہوں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ کیا بھارتی سیاستدان اور میڈیا نہیں چاہتا کہ سنجیدہ تحقیقات کے ذریعے سے اصل مجرمان تک پہنچا جائے؟
پاکستان نے بھارتی مطالبات پر اتنا کچھ کر دیا ہے کہ بھارت کے پاس پاکستان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ بھارت نے ایک جانب تو پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو بھارت کے دورے کی اجازت دیکر دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ بھارت بظاہر ان تحقیقات میں سنجیدہ ہے اور دشمنی برائے دشمنی کی بنیاد پر کوئی اقدامات نہیں کریگا لیکن ساتھ ہی اقوام متحدہ میں بھارتی قلابازی بھی دیکھنے کو ملی جب تحقیقات کے آغاز میں ہی بھارت نے اقوام متحدہ میں یہ تحریک پیش کرنے کی کوشش کی کہ مسعود اظہر کو سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1267 کے تحت بلیک لسٹ کیا جائے۔

جیش محمد نامی تنظیم پر پاکستان نے پہلے ہی 2002 سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے اس کوشش کا مقصد در اصل پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دلوانے کی سعی کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ بھارت کی اس کوشش کو چین نے روک دیا کیونکہ چین کا خیال تھا کہ بھارت کے پاس اپنے مطالبے کے حق میں کافی ثبوت موجود نہیں۔ کچھ بھی ہو اس بھارتی کوشش کی ” ٹائیمنگ“ نہایت غیر مناسب تھی۔


ٹیکسی ڈرائیور سے چھینے گئے ٹیلی فون پر پہلی کال پاکستان سے کیسے آئی اور پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے مبینہ ساتھی کو کیسے معلوم ہوا کہ دہشتگرد جو فون چھینیں گے اس کا نمبر کیا ہو گا تو پرانا سوال ہو گیا ہے۔ بھارتی سیاستدان اور میڈیا اب اپنی مضحکہ خیزی میں دو قدم مزید آگے بڑھ گئے ہیں۔ ” انڈین ایکسپریس“ اور کچھ دیگر بھارتی اخبارات کی رپوٹ کیمطابق پاکستان میں جن فون نمبروں پر دہشتگردوں سے رابطہ کیا گیا ان میں سے ایک ساہیوال کے رہائشی، سعد مغل ، دوسرا کاشف نام کے کسی شخص کا اور تیسرا عثمان سرور کا ہے۔

اسی طرح انہوں نے چوتھے اور پانچویں نمبر کا پتہ بھی چلا لیا ہے۔ اس سب میں لطیفہ یہ ہے کہ یہ سب اطلاعات کسی انٹیلی جنس رپوٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ انٹر نیٹ پر موجود مختلف ویب سایئٹس بشمول ” ٹرو کالر“ سے لی گئیں ہیں اور ان سب نمبروں سے متعلق ان اشخاص کے فیس بک اکاؤنٹ بھی ہیں جن میں وہ اعلانیہ طور پر جیش محمد اور مبینہ دہشتگرد تنظیموں کیلئے کام کر رہے ہیں۔

مطلب دہشت گرد ، جنہوں نے انڈین آرمی، کمانڈوز اور دیگر آٹھ کے قریب بھارتی ایجنسیوں کو کئی دنوں تک نچائے رکھا وہ اور انکے مبینہ پاکستانی ساتھی اتنے احمق تھے کہ وہ ایسے نمبر استعمال کر رہے تھے جو انکے ناموں پر رجسٹرڈ تھے بلکہ ان نمبروں پر فیس بک اکاؤنٹ بھی موجود تھے جن میں وہ مختلف جہادی تنظیموں کے کارندوں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

اگر اتنے احمق لوگوں نے اتنی بھارتی ایجنسیوں کو اتنے دن تک نچائے رکھا تو اگر کبھی کسی ملک سے کچھ عقلمند لوگ بھارت میں گھس گئے تو بھارت کا کیا حال ہوگا؟ سب کو پتہ ہے کہ کوئی معمولی چور بھی اتنی عقل رکھتا ہے کہ وہ اپنے نام رجسٹرڈ فون واردات میں استعمال نہیں کرتا۔ سب سے مزے کی بات ہے کہ فیس بک اور انٹر نیٹ سے اکٹھی کی گئی ان مبینہ معلوما ت کی بنیاد پر بھارت ان متعلقہ اشخاص سے تحقیقات کا مطالبہ کرنے کی بجائے اس بنیاد پر مسود اظہر اور مولانا لکھوی تک رسائی بھی مانگ رہا ہے اور اس سب کو ان دونوں اور پاکستان کیخلاف ” مکمل ثبوت“ بھی کہہ رہا ہے۔

ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور جسکا فون مبینہ طور پر دہشتگردوں نے استعمال کیا 31 دسمبر کی رات(یا اس سے قبل) قتل ہوا اور پٹھان کوٹ بیس پر حملہ 2 جنوری کی صبح شروع ہوا۔ اتنا حساس علاقہ ، ایجنسیوں کی جانب سے ہائی الرٹ وارننگ اور قتل کی واردات ہونے کے بعدبھی لاپتہ ہونیوالے اس فون کو کسی نے بلاک نہیں کروایا اور دہشتگرد کئی دن بعد بھی استعمال کرتے رہے؟
ایک اور لطیفہ جو بھارتی میڈیا ( IndiaTV اور پرنٹ میڈیا) رپوٹ کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو دہشتگردوں کے پاس سے پاکستان کی بنی ادویات ، سرنجیں اور ” نیورو بائیون“ کے انجکشن ملے ہیں۔

اگر بھارتی یہ دعویٰ کرتے کہ کسی ” اینٹی بائیوٹک“ یا ” پین کلر“ کے انجکشن ملے ہیں تو شاید کچھ بات بن جاتی ، دہشتگردوں نے ایسے حالات میں جب وہ ایک ”خودکش مشن “ پر تھے ، ’ نیورو بایون“ کے انجکشن کیا کرنے اور انکا کیا استعمال تھا؟ بھارتی شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ بلا شبہ ” نیورو بائیون“ ایک عام سا انجکشن ہے لیکن یہ ٹیکہ جولائی 2015 سے پاکستان کی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

کوئی بھی کسی بھی میڈ یکل سٹور پر جا کر اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے۔ دہشتگردوں نے جانے سے قبل یہ ٹیکے کیسے اور کہاں سے خرید لیے؟ کہیں یہ کچھ ماہ قبل ہی تو بھارت نہیں پہنچ گئے تھے؟
پوچھنے والے تو یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ کیا اس ٹیکسی ڈرائیور کا فون انٹر نیشنل تھا یا اسمیں اتنا بیلنس موجود تھا کہ اس فون سے دہشت گردوں نے پاکستان کو اتنی لمبی لمبی انٹر نیشنل کالیں کر لیں ؟ اگر اسکا جواب یہ ہے کہ دہشت گردوں نے فون میں بیلنس ڈلوا لیا تھا یا بل ادا کر لیا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کے قبضے سے مبینہ طور پر ” میڈ ان پاکستان “ ادویات اور ٹیکے کیسے برآمد ہوئے۔

جو دہشت گرد فون میں بیلنس یا بل کی ادائیگی بھارت میں کر سکتے تھے کیا وہ بھارت سے درد کی عام ادویات یا کچھ ٹیکے نہیں خرید سکتے تھے۔ امید ہے یہ سب سوالات پاکستانی ٹیم نے بھارتی تحقیقاتی ادارے کے سامنے رکھے ہونگے۔ ساتھ ہی بھارت کی اگر نیت صاف ہے تو اسے بلا جواز مطالبات اور پاکستان کی نیت پر شک کرنے کی بجائے ان تحقیقات میں پاکستان کی کھلے دل و دماغ کے ساتھ مدد اور تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئیے۔ تحقیقات کا کوئی نتیجہ نکلنے تک یا بغیر ٹھوس شواہد کے کسی بھی پاکستانی کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے کا مطالبہ کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں رکھتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pathankot Tehqiqat Or Baharti Qalabazi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 April 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.