پی آئی اے کامسئلہ کیوں پیدا ہوا

قومی ائیرلائن کا1965ء کے دورمیں دنیا بھر میں بڑانام تھا ادارے میں سیاسی بھرتیوں اور اضافی ملازمین کابوجھ اسے لے ڈوبا

بدھ 10 فروری 2016

PIA ka masla kiun paida huwa
رحمت خان وردگ:
پی آئی اے ملازمین کے احتجاج کے وقت رینجرز کے افسران کوبھی ایسے احکامات پر عملدرآمد سے انکار کرد ینا چاہئے جس سے عسکری اداروں کی بدنامی ہواور خدا نخواستہ عوام پر گولی چلانی پڑے۔ رینجرز افسران کوچاہئے کہ وہ پی آئی اے ملازمین کے احتجاج کے لئے پولیس کی خدمات کامشورہ دیں کیونکہ پولیس ہی ایسا سول ادارہ ہے جوعوام سے ہروقت براہ راست رابطے میں رہتا ہے۔

بھٹو صاحب کے خلاف تحریک میں بھی فوج نے کراچی لاہور‘ فیصل آباد سمیت بڑے شہروں میں عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیاتھا۔ اب اس سانحے کی ہر صورت انکوائری بہت ضروری ہے تاکہ زینجرز کے خلاف سازش کو بے نقاب کیاجاسکے اور ملازمین کوشہید کرنیوالے اصل سفاک قاتلوں کاپتہ لگاکر قوم کواصل مجرموں کے چہروں سے روشناس کرایا جاسکے۔

(جاری ہے)

ہماری قومی ائیرلائن کا 1965ء کے دور میں دنیا بھر میں نام تھا اور عرب ملکوں میں اپنی ایئرلائنز کی تشکیل اورتربیت کے لئے ہماری قومی ایئرلائن کے افراد کی مہارت اور تجربے سے استعفادہ کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا تھا۔

ائیرمارشل اصغر خان اور ائیرمارشل نورخان کی سربراہی تک پی آئی اے کانعرہ” باکمال لوگ‘ لاجواب سروس” بالکل درست تھا۔ ہماری ایئرلائن نے ہی ایک طرح سے امارات ائیرلائن سمیت کئی نامور فضائی کمپنیوں کوجنم دیا۔ قومی ایئرلائن کے عروج کی اصل وجہ یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی سے قبل قومی اداروں میں سفارشی ‘ سیاسی بھرتیاں نہیں ہوتی تھیں اور اگر ہوتی بھی تھیں توان کی تعداد اس قدر تھی مگر 1980ء کی دہائی میں جب سیاست پر جاگیرداروں کے بعد سرمایہ اداروں اور صنعت کاروں نے قبضہ جمانا شروع کیا توقومی اداروں میں ضرورت سے کئی گنا زیادہ سیاسی بھرتیاں کی گئیں اور میرے خیال میں ہرسرکاری ادارے میں بھرتی ہونیوالے سے لاکھوں روپے رشوت لی گئی ہو گی۔

پی آئی اے سمیت قومی ادارے کے ملازمین کاکوئی قصور نہیں کیونکہ اکثریت نے تورشوت دیکر ملازمتیں حاصل کیں۔ اصل قصور توان افراد کاہے جنہوں نے رشوت کے عوض ضرورت سے کئی گنا زیادہ افراد کوبھرتی کرلیا۔ پی آئی اے کی نجکاری کیلئے پارلیمنٹ میں بل پاس کیا گیا ہے جس کے بعد سے پی آئی اے ملازمین میں ہڑتال پرہیں اور اس ہڑتال میں اس وقت تیزی آگئی جب بدقسمتی سے کراچی ائیرپورٹ پر احتجاجی ملازمین پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی جس سے موقع پر ہی دوملازمین شہید ہوگئے۔

اس بدترین واقعے کے فوراََ بعد سندھ حکومت کے ذمہ داران نے تو احتجاجی افراد سے ملاقاتیں کرکے تعزیت بھی کی اور شہداء کے لئے مناسب معاوضے کا بھی اعلان کیالیکن بدقسمتی سے وفاق کی جانب سے نہ تواس سانحے پر تعزیت کی گئی اور نہ ہی کسی معاوضے کاابھی تک اعلان کیا گیا ہے جس سے پی آئی اے ملازمین کے غم وغصے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ احتجاجی ملازمین نے ہڑتال سے قبل حکومت کومذاکرات کیلئے مناسب وقت دیالیکن حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آئے کہ جو بھی ملازم ہڑتال کریگا اسے جیل بھیج کرملازمے سے برطرف کردیاجائیگا۔

میرے خیال میں یہ طریقہ کاربالکل غلط تھا اور یہی ہٹ دھری تاحال جاری ہے۔ حکومت کے مطابق پی آئی اے میں ضرورت سے کئی گناہ زیادہ افراد بھرتی ہیں۔ بہرحال قومی ائیرلائن میں جتنے بھی ملازمین ہیں‘ اگر زیادہ ملازمین ہونے کی وجہ سے ادارہ خسارے کاشکار ہے تو اس کا مناسب حل تومناسب گولڈن شیک ہینڈ کااجزاء ہے۔ اگر ادارے میں کرپشن ہورہی ہے توموجودہ حکومت آخر کس مرض کی دوا ہے؟ جس نے ” گڈگورننس“ میں خود کو بے مثال قرار دے رکھا ہے۔

اس حکومت کی گڈ گورننس کی مثال توسینیٹرمشاہد اللہ کے 3بھائیوں کی قومی ایئرلائن کے بہترین بیرون ممالک اسٹیشنز پر انتہائی اہم عہدوں پر تعیناتی ہے۔ سینیٹرمشاہد اللہ خود بھی پہلے ائیرلیگ میں رہے ہیں اور اب انہوں نے اپنی پارتی کی حکومت میں اپنے بھائیوں کواس طرح سے چارمنگ اسٹیشنزپرہیڈ لگوایا ہے جیسے یہ ادارہ ان کی ذاتی جاگیرہو۔ اگرحکومت خود اس طرح کی گڈگورننس کریگی توآخر غریب ملازمین کااس میں کیا قصور ہے کہ ادارہ بھاری نقصان کاشکار ہے۔

شیل پاکستان لمیٹڈ بننے سے پہلے برماشیل کی بھی یہی حالت تھی اور ادارہ بھاری نقصان کاشکار تھا مگر وہاں پرادارے کی انتظامیہ نے ملازمین پر ظلم وستم کرنے کے بجائے انتہائی مناسب گولڈن شیک ہینڈ کااعلان کیااور لوگوں نے قطاروں میں لگ کراسکیم سے فائدہ اٹھایا اور ادارے پربھی اضافی ملازمین کا بوجھ ختم ہوگیااور 60فیصد ملازمین نے بخوشی گولڈن شیک ہینڈ لے لی۔

برماشیل نے توبعد میں گولڈن شیک ہینڈ خود ختم کردی تھی ورنہ میرے خیال میں توسارا عملہ ہی گولڈن شیک ہینڈ لے لیتا کیونکہ ملازمین کوبہترین پیکج دیاگیا تھا۔ اب حکومت کا دعویٰ ہے کہ سالانہ 350ارب روپے کانقصان ہوا ہے اور یہی سلسلہ سالہاسال سے جاری ہے۔ اگر حکومت 8سال سے زیادہ ملازمت کرنیوالے ہر فرد کے لئے 1-1کروڑ روپے گولڈن شیک ہینڈ کااعلان کردے تو 350 ارب کے بجائے صرف 50ارب روپے میں ہی 5000ملازمین باعزت طریقے سے اپنا کاروبار کر سکیں گے اور ادارے پر اضافی ملازمین کابوجھ ختم ہوجائیگا لیکن میرے خیال میں اصل معاملہ کچھ اور ہے اور اضافی ملازمین کے بوجھ کاجھوٹا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

پہلے انتہائی مناسب گولڈن شیک ہینڈ دیں تاکہ اضافی ملازمین کابوجھ کم ہوسکے اور اسکے بعد آئین میں ترمیم کرکے تمام قومی اداروں میں میرٹ اور کوٹے کے مطابق بھرتی اور کوئی بھی سیاسی ‘ سفارشی اور راشی افراد میرٹ اور کوٹے کے برخلاف ملازمتیں حاصل نہ کرسکیں۔ میڈیا میں یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اپنے فرنٹ مین کے ذریعے حکمران ایک بارپھر قومی ادارہ اونے پونے خریدنے کے مشن پرکاربند ہیں اور اسی لئے پی آئی اے کی درستگی ان کے ایجنڈے میں ہی نہیں اور یہ توخوش ہورہے ہیں کہ سارے طیارے گراؤنڈ ہوگئے ہیں۔

ان حالات مین ان کے مشن کی تکمیل میں آسانی ہوگی۔ پی آئی اے کے بیرون ملک انتہائی مہنگے اور منافع بخش ہوٹل بھی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنیکا منصوبہ زیر تکمیل ہے اور ان حالات میں پی آئی اے کے 30-35سال سے ایمانداری سے ملازمت کرنیوالے ملازمین کامستقبل داؤ پرلگادیا گیا ہے۔ پی آئی اے کاجرمنی میں واقع روزہیلٹ ہوٹل سالانہ بھاری منافع کماتاہے۔

اس ہوٹل کوپہلے بھی دو مرتبہ رہن رکھا گیالیکن اس ہوٹل نے اپنی آمدنی سے ہی تمام ادائیگیاں کیں لیکن اس بار اس ہوٹل کوانتہائی کم قیمت پر اپنے فرنٹ مین کودینے کی تیاری ہوچکی ہے۔ موجودہ حالات کی تمام ترذمہ داری موجودہ حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے جنہوں نے پی آئی اے ملازمین کون ان کے جائز حقوق دیکر گولڈن شیک ہینڈ دینے کے بجائے غلط راستے کاانتخاب کیا ہے اور اب قومی خزانے کویومیہ بنیاد پراربوں روپے کانقصان ہونے کے ساتھ ساتھ عمرہ اور دیگر وجوہات کیلئے سفر کرنیوالے تمام افراد دھکے کھانے پر مجبور ہیں اور ان کاکوئی پرسان حال نہیں۔

پی آئی اے کامسئلہ درست طریقے سے بھی حل کیاجاسکتا ہے مگر اس کے لئے خلوص نیت کاہونا بہت ضروری ہے بھارت کی قومی ائیرلائن تو بہترین طریقے سے چل رہی ہے کیونکہ وہاں کی ائیرلائن کابورڈ خالصتاََ ایوی ایشن کی صنعت سے وابستہ افراد پر مشتمل ہے توادارے کوترقی کی جانب لے جارہے ہیں لیکن یہاں پی آئی اے کے بورڈ میں ہرسیاسی دور میں اپنے من پسند ایسے افراد کوبٹھا کر من مانے فیصلے کئے گئے جن کا ایوی ایشن کی صنعت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا اور اسی پالیسی کی وجہ سے ادارہ آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

اسی حکومت نے جرمنی سے لاکر کسی شخص کو 50لاکھ ماہانہ تنخواہ پر پی آئی اے میں بھرتی کیاہے۔ اتنی بھاری تنخواہ کے حامل افراد کے باوجود ادارہ تباہی کے دہانے پرپہنچنے کے ذمہ دار دوسرے ملازمین تونہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

PIA ka masla kiun paida huwa is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.