پرائیوٹ سکیورٹی گارڈخطرہ بن گئے

بے گناہ افراد کی ہلاکت معمول بن گئی کراچی میں سکیورٹی گارڈنے ماسک پہنے لڑکے کی جان لے لی

ہفتہ 27 اگست 2016

Private Security Guard Khatra Ban Gaye
محمد رمضان چشتی :
کراچی سکیورٹی گارڈ نے گلی میں سائیکل سوار بچے کو گولی مارکرموت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس معصوم بچے کا قصور محض اتنا تھا کہ اس نے چہر پر ڈراؤنا ماسک پہن رکھاتھا ، اندھیری گلی میں بچہ پیچھے سے سائیکل چلاتے ہوئے جب سکیورٹی گارڈ کے قریب آیا تو اس نے فائرداغ دیا۔ ملزم سکیورٹی گارڈ کے مطابق یہ سمجھا کہ اچانک کوئی جن بھوت آگیاا ور اس نے بندوق کاگھوڑا دبادیا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس سے کسی کی جان چلی جائے گی ۔

ملزم سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ اس سے قبل اس نے کوئی نوکری نہیں کی اورنہ ہی اسے گولی چلانا آتی ہے وہ تو گاؤں میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا اور اسے روازنہ کے ڈیڑھ سوروپے ملتے تھے۔ پولیس کو دیئے گئے اس بیان سے آپ حفاظت کے لئے رکھے جانے والے سکیورٹی گارڈز کی اہلیت، صلاحیت، ذمہ داری اور فرض شناسی کابخوبی انداز لگاسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

فیصل ٹاؤن میں سکیورٹی گارڈ نے معمولی بات پر تین تاجروں کو موت کی نیند سلادیا تھا۔

سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سیٹھ عابد کالائق صاحبزادہ بھی ہلاک ہوچکا ہے۔ لاہورکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کا ملزم بھی سکیورٹی گارڈنکلا۔ سی آئے اے ماڈل ٹاؤن پولیس نے واردات کے مرکزی ملزم سکیورٹی گارڈ وقار کوگرفتار کرکے اس کے قبضہ سے دوکروڑ روپے برآمد کر لئے۔ 2015ء میں گلبرگ کے نجی بینک سے چار ڈاکو 9کروڑروپے لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔ پولیس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اس بنک ڈکیتی کی بڑی واردات میں بینک سکیورٹی گارڈ وقار ملوث ہے جو مفرور اور روپوش ہے اسے بعدازاں گرفتار کرکے بینک سے لوٹے گئے دو کروڑ روپے برآمد کرلئے گئے ۔

گویا جسے بینک کی حفاظت کیلئے سکیورٹی گارڈ کے طور پر مامور کیا وہی ڈاکو اور لٹیرانکلا۔ پاکستان میں لااینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ہرشخص عدم تحفظ کا شکارہے۔ اعلیٰ حکومتی اور مقتدرادارے تو سکیورٹی حصار اور پروٹوکول میں بحفاظت گھومتے پھرتے ہیں جبکہ بڑے پرائیوٹ اداروں او ر ایلیٹ کلاس، نامورسیاستدانوں، وڈیروں، زمینداروں، مذہبی رہنماؤں نے بھی سکیورٹی گارڈ اور محافظوں کی فوج ظفر موج رکھی ہوئی ہے اور وہ بڑی گاڑیوں اور جیپوں میں ان سکیورٹی گارڈز اور محافظوں کے نرغے میں گھروں اور ڈیروں سے نکلتے اور سفر کرتے ہیں اور بسا اوقات ان کا سڑکوں، بازاروں، چوراہوں پرعام شہریوں سے ان کے رویے کے باعث تصادم یاجھگڑا بھی ہوجاتا ہے اور کئی ناخوشگوار واقعات بھی سڑکوں، بازاروں میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں عام درمیانے اور نسبتاََ چھوٹے ادارے اور صاحب حیثیت افراد بھی اپنی حفاظت کے لئے سکیورٹی گارڈز رکھ لیتے ہیں جبکہ گلی محلوں، سوسائٹیوں ، مارکیٹوں اور بازاروں کی حفاظت کے لئے بھی بغیر تحقیق کے پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز رکھے جاتے ہیں۔ جنکی ذمہ داری ڈاکوؤ ، لیٹروں اور چوروں سے محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن یہ گارڈز الٹا وبال جان ثابت ہوتے ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صرف آرمی کے ریٹائرڈاہلکار ہی ذمہ دار سکیورٹی گارڈز کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں کیونکہ پاک آرمی کی انتہائی اعلیٰ فوجی تربیت، اخلاقی، قانونی اور معاشرتی انداز کی پاسداری ان کی تربیت کالازمی حصہ ہوتی ہے اور اسلحہ چلانے، نشانہ لینے اور اسلحہ کی صفائی وغیرہ پر انہیں زیادہ دسترس حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے لوگ اور پرائیوٹ ادارے سابق فوجیوں کو سکیورٹی گارڈ کے طور پر اولیت اور ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلقہ کاروباری اداروں اور ضروریات کے پیش نظر ان کی حفاظت اولین مسئلہ بن جاتی ہے کیونکہ دہشت گردی لاقانونیت اور بدامنی کے باعث ہرکوئی اپنی اور اہل خانہ کی جان ومال کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت صوبہ سرحد پوٹھوہاری علاقوں ، خوشاب اور جنوبی پنجاب کے سکیورٹی گارڈز کوترجیح دیتی ہے جبکہ بہت سے ادارے بھی پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز فراہم کررہے ہیں۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر سکیورٹی گارڈز غیرتربیت نہیں اسی باعث وہ کسی بھی عجلت، پریشانی یاآزمائش میں عوام کی جان ومال کا تحفظ کی بجائے ان کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں جبکہ بیس پچیس ہزار تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈز کا بائیوڈیٹا اور تفصیلات بھی جمع نہیں کی جاتیں بکہ انہیں شخصی ضمانت یا سفارش پر بلاسوچے سمجھے جان ومال کی حفاظت کے لئے رکھ لیاجاتا ہے وہ چاہے تخریب کار، دہشت گرد یا جاسوس ہی کیوں نہ ہو۔

اسی صورتحال کے پیش نظر محترم چیف جسٹس جسٹس محمد انور جمالی نے بھی درست کہا ہے کہ بلاسوچے سمجھے اور چھان بین کے بغیر رکھے جانے والے سکیورٹی گارڈز دشمنملک کے ایجنٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کے انتباہ کے بعد پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز کے معاملہ کی سنگینی اور بھی زیادہ عیاں ہوگئی ہے کہ اس معاملہ پر ازحد احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہے۔ پرائیوٹ سکیورٹی گارڈ مختلف جرائم اور وارداتوں میں بنی ملوث پائے جاتے ہیں اور انہوں نے قاباعدہ گینگ بھی بنارکھے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کے لئے سکیورٹی گارڈز کھنانا گزیرہوتا رہا ہے اور یہ کیمیا انصاف ہے کہ عوام حکومت کو ٹیکس بھی ادا کریں اور اب اپنی حفاظت کے لئے سکیورٹی گارڈز بھی خود رکھیں، اس کے بعد حکومت کی رٹ کہا رہ جاتی ہے۔ سعودی عرب میں مقیم انجینئر سروش دانش نے بتایا کہ وہاں نماز کے اوقات میں لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کرچلے جاتے ہیں مجال ہے ایک سوئی بھی چوری ہوجائے، اسی طرح اکادکاچوری چکاری کے مرتکب افراد کو فوری اور اسی وقت سزادے کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں مجرم کوسزانہ ملنے کے باعث ہی چوری، راہزنی، ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز کی زیادہ ضرورت پیش آرہی ہے۔ علاوہ ازیں ناجائز اور جائز اسلحہ ھی وارداتوں کا بڑاسبب بن رہا ہے جبکہ اسی اسلحہ کی بنا پر روزانہ لوگوں کی بڑی تعداد قتل ہورہی ہے اور گھر اجڑر ہے ہیں خواتین بیوہ اور بچے یتیم اوربے آسراہو رہے ہیں جائزوناجائز اسلحہ پر قابوپاکر ملک میں امن عامہ کی صورتحال کو بہت بہتر بنایاجاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Private Security Guard Khatra Ban Gaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.