پنجاب میں 700 بچوں کا اغواء

یہ پھول گھر سے بھاگے یا کسی نے نوچ لیے والدین کی نیندیں اور سکون غائب

جمعہ 5 اگست 2016

Punjab Main 700 Bachon Ka Aghwa
شہریار اشرف :
دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں جرائم نہ ہوتے ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جرائم کی شرح کہیں کم اور کہیں زیادہ ہے۔ مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی نسبت ترقی یافتہ ممالک میں جرائم یادہ ہوتے ہیں۔ امریکہ جب برطانیہ کے قبضے میں تھا وہاں اُس وقت سے جرائم ہو رہے ہیں۔ 1963 میں ان میں بے حداضافہ ہوا اور 1970 سے 1990 کے درمیان یہ اپنے عروج پر تھے۔

آج بھی یہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے جن میں راہزنی،چوری اور اغوا کی وارداتیں سر فہرست ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے جرائم میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ والدین میں ناچاقی، روزانہ کا لڑائی جھگڑا اور طلاق ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ میں قانون بہت سخت ہونے کے باوجود بھی اغوا کی وارداتوں میں کمی نہیں ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

ہم ہر چیز میں اپنا موزانہ ترقی یافتہ ممالک سے کرتے ہیں۔ اگر ان ممالک میں بچوں کے اغوا پر قابو نہیں پایا جارہا تو پھر پاکستان میں ایسی وارداتوں میں قابو پانے کے لئے توکئی سال درکار ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری پولیس عوام کو مایوس نہیں کرتی بلکہ دن رات ان کے جان ومال کے تحفظ کے لئے تیار رہتی ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی میں بہت تاخیر ہوجاتی ہے لیکن یہ کام عدالتوں کا ہے۔

پولیس کاکام صرف مجرموں کو پکڑ کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا ہے۔ اخبارات میں آئے روز خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور پولیس جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔ لیکن انہی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوتی ہیں کہ پولیس نے جرائم پیشہ گینگ سے کروڑوں روپے کی نقدی، طلائی زیورات اور گاڑیاں برآمد کرکے مالکان کو واپس کیں۔

پولیس اگر سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے تو دوسری طرف خطرناک گینگ، ڈکیت اور اشتہاری مجرم بھی گرفتار کرتی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے میڈیا میں بہت تیزی آگئی ہے جس کی وجہ سے خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ لیکن یہ تصدیق نہیں کی جاتی کہ آیا یہ خبر سچائی پر مبنی ہے یا من گھڑت ہے کیونکہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اصل حقائق جان سکیں۔

آجکل صوبہ پنجاب میں بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہیں جس نے پولیس کو بھی پریشان کررکھا ہے کہ آخر اچانک اتنے اغوا کار کہاں سے آئے جو روزانہ بچوں کو اغواکررہے ہیں۔ رواں سال کے گزرے ہوئے چھ ماہ کے دوران لاہور سمیت پنجاب کے 36 اضلاع میں بچوں کے اغوا کی شرح میں خطرناک حدتک اضافہ ہوگیا ہے۔ صوبہ بھر کے اضلاع سے 655 سے زائد بچوں اور بچیوں کو اغوا کرلیاگیا جس میں شہر لاہور سے 315 بچوں کو اغوا کیاگیا۔

لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 219 مقدمات پیش کئے گئے ۔ کچھ عرصہ میں اغوا اور لاپتہ بچوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی جو گزشتہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ صرف راوی روڈ کے علاقے میں 6 ماہ کے دوران 15 بچوں کو اغوا کیاگیا ہے۔ اقبال ٹاؤن ڈویژن سے 10 صدرڈویژن سے 30 ، ماڈل ٹاؤن ڈویژن سے 31 بچے اغوا ہوئے جبکہ کینٹ ڈویژن میں 52 جبکہ سول لائن ڈویژن میں سب سے کم 17 بچے اغوا ہوئے۔

200 سے زائد اغوا ہونے والے بچوں میں سے صرف 43بچوں کو بازیاب کرایا جاسکا سوچنے والی بات یہ ہے کہ اغوا کی ان وارداتوں کے پیچھے محرکات کیا ہیں۔ کیا یہ تمام بچے اغوا ہوئے ہیں یا ازکود لاپتہ ہوئے ہیں۔ اس بارے جب تما م معلومات اکٹھی کیں تو پتہ چلا کہ 41.3 فیصد بچے ماں باپ کے سخت رویے کی وجہ سے گھروں سے بھاگے۔ 21.9فیصد گم ہونے والے بعد میں ازخود ہی مل گئے۔

6.1 فیصد بچے رشتہ داروں نے اور 5سے 6 فیصد بچے خاندانی معاملات کی وجہ سے اغوا ہوئے۔ 3.47 فیصد بچے مدارس اور سکولوں میں اساتذہ کی مار کی وجہ سے گھروں سے لاپتہ ہوئے۔ 1.3 فیصد بچے ہسپتالوں سے لاپتہ ہوئے اور پھر مل گئے۔ 1.2 فیصد بچے جنسی زندگی کا نشانہ بنے۔ 0.8 فیصدبچے بھکاری اور 0.8 فیصد جیب تراش بن گئے۔ بچوں کے گھروں سے بھاگنے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔

غریب والدین چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو گیراج، دکانوں اور چھوٹی صنعتوں میں کام کرے کے لئے بھیج دیتے ہیں جہاں کام سکھانے والے اساتذہ کا رویہ پر تشدد ہوتا ہے لہٰذا یہ بچے یہاں سے بھی بھاگ کر دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ معصوم بچے نہیں جانتے کہ وہ معاشرے کی بے راہ روی کاشکار ہورہے ہیں۔ بلاشبہ اساتذہ کا سخت رویہ تعلیم کی کمی، جرائم پیشہ عناصر سے تعلقات ، نشہ آور جنسی درندگی اور مدارس کا سخت رویہ بچوں کو بدگمان کرتا ہے۔

بادامی باغ سے لاپتہ ہونے والے پانچ بچوں کی بازیابی کے بعد جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ” وہ اپنے ماں باپ کے ناروا رویہ کے باعث گھر چھوڑ کر گئے تھے۔ گزشتہ دنوں جنوبی چھاؤنی کے علاقہ کیرکوٹ بیدیاں روڈ سے رکشہ ڈرائیور محمد احمد کی 9سالہ بیٹی پراُسرار طور پر لاپتہ ہوگئی۔ نمرہ گھر سے شیمپو خریدنے کے لئے دکان پر گئی تھی مگر وہ گھر واپس نہ آئی ۔

پولیس نے نمرہ کے والد محمد احمد کی درخواست پر مقدمہ درج کرلیا تاہم بعدازاں لاپتہ ہونے والی بچی نمرہ رات کو ڈیفنس پی بلاک سے مل گئی۔ اسی طرح مغل پورہ پولیس نے والدین سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ جانے والی بارہ سالہ لڑکی علیشا کو تلاش کرکے اس کے والدین کے سپرد کردیا۔ شاد باغ کشمیر روڈ سے دس روز قبل لاپتہ ہونے والا 17سالہ لڑکا زید اینس خود ہی گھر واپس آگیا۔

زید اینس نے بتایا کہ اس کے والد نے اسے ڈانٹا اور موبائل فون بھی واپس لے لیا تھا۔ دوسری طرف پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر اس جگہ جہاں پر گھر سے بھاگ کر آنے والے بچے موجود ہوتے ہیں وہاں پر ہنگامی بنیادوں پر سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے جن میں داتا دربار، ریلوے اسٹیشن، مینار پاکستان، بادامی باغ اور لاری اڈہ شامل ہیں۔ حکومت پنجاب کے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب کی مسلسل کاوشوں سے رواں سال 2016ء میں اب تک 3420 گمشدہ اور گھر سے بھاگ بچوں کو ان کے والدین تک پہنچایا جاچکا ہے۔

چیئرپر سن چائلڈ پرٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو صبا صادق نے کہا ہے کہ بچوں کی گمشدگی کے واقعات سے نمٹنے کیلئے حکومت پنجاب ہر ممکن اقدامات کررہی ہے۔ چائلڈپروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب کے لاہور آفس کے پبلک ریلیشن آفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ زیادہ تر بچے گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر بھاگتے ہیں۔ ہمارے پاس جو بچے آتے ہیں ہم عدالت اطلاع کرنے کے بعد انہیں چھت مہیا کرتے ہیں اور اسی طرح جب کسی بچے کے والدین کا علم ہو جائے تو عدالت کے ذریعے ہی اس بچے کو والدین کے سپرد کیاجاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Punjab Main 700 Bachon Ka Aghwa is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.